Maktaba Wahhabi

179 - 220
ٹھہرے رہے، عبداللہ بن أبی بکر اور ایک ذہین وفطین لڑکا ان کے یہاں رات گزارتا۔ رات کے آخری پہر مکہ چلاجاتا اور قریش کے درمیان رہتا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے ساتھی کے متعلق کوئی بھی خبر سنتا تو ذہن نشین کرلیتا۔ اور تایکی کی چھاجانے کے بعد ان دونوں تک خبر پہنچا دیتا۔ قریش نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ہر طریقے سے تلاش کرنا شروع کردیا اور ہر طرح کے وسائل استعمال کرنے لگے کہ کسی طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم کوپاجائیں۔ یہاں تک کہ انہوں نے اس شخص کے لیے دیت کے سواونٹ مقرر کردئیے جو ان دونوں کو یاکسی ایک کو لائے گا۔ لیکن اللہ تعالیٰ ان دونوں کے ساتھ تھا اور اپنی عنایت سے ان کی نگہبانی فرمارہا تھا۔ یہاں تک کہ قریش آکر غار کے منہ پر کھڑے ہوجاتے ہیں پھر بھی ان کو نہیں دیکھ پاتے۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ غار میں میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ اگر کسی نے اپنے قدموں میں نگاہ ڈال دی تو ہمیں ضرور دیکھ لے گا۔ آپ نے فرمایا’’فکر نہ کرو۔ بے شک اللہ ہمارے ساتھ ہے۔ تمہارا ان دو کے بارے میں کیا خیال ہے جن کاتیسرا اللہ ہو‘‘؟ یہاں تک کہ جب ان کی تلاش کچھ ٹھنڈی پڑ گئی تو تین رات کے بعد غار سے نکل کرساحل کارخ کیا اور مدینہ کی راہ لی۔ جب مدینہ کے انصار اور مہاجرین نے اپنی طرف نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد کے بارے میں سنا تو وہ روزانہ صبح حرہ تک آکر نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے اصحاب کی آمد کاانتظار کرتے اور سورج کی تمازت ہی انہیں واپس لے جاتی تھی۔ جب وہ دن آگیا جس میں آپ تشریف لائے تھے تو دن بلند ہوجانے اور گرمی سخت ہوجانے پر لوگ اپنے گھروں کو چلے گئے تھے۔ مدینہ کی کسی پہاڑی پر ایک یہودی اپنی کسی ضرورت سے ادھر ادھر نظریں دوڑارہا تھا اس نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کو آتے دیکھا کہ سراب انہیں واضح کرتا جارہا ہے۔وہ بے اختیار بلند آواز سے چلااٹھا کہ عرب والو! یہ رہا تمہارا وہ نصیب وعزت جس کاتم انتظار کررہے ہو۔ چنانچہ مسلمان نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ملاقات کو امنڈپڑے اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی تعظیم وتکریم کے طور پر اور اس بات کے اظہار کے لیے کہ وہ جہاد اور آپ کے دفاع کے لیے مستعد ہیں ہتھیار بھی اپنے
Flag Counter