جب آپ کاگزر موسیٰ پر ہوا تو انہوں نے کہا: تمہارے رب نے تمہاری امت پر کیا فرض فرمایا ہے؟ ہردن پچاس نمازیں۔ انہوں نے کہا: تمہاری امت اسے نبھانہیں سکے گی۔ تم سے پہلے میں لوگوں کاتجربہ کرچکا ہوں اور بنی اسرائیل میں زبردست اصلاحی کام کرچکا ہوں۔ تم اپنے رب کے پاس واپس چلے جائو اور اس سے اپنی امت کے لیے تخفیف کامطالبہ کرو۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں واپس ہوا اور مجھ سے دس نمازیں کم کردی گئیں۔ آپ برابر اپنے رب کے یہاں جاتے رہے یہاں تک کہ فریضہ پانچ پر آکر ٹھہر گیا تو ایک اعلان کرنے والے نے اعلان کیا کہ میں نے اپنا فریضہ عائد کردیا ہے اور اپنے بندوں کے لیے سہولت پیدا کردی ہے۔ اسی رات نبی صلی اللہ علیہ وسلم جنت میں لے جائے گئے۔ جہاں موتیوں کے گنبد ہیں اور جنت کی مٹی مشک ہے۔ پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم اتر آئے۔ یہاں تک کہ صبح کی تاریکی میں مکہ پہنچ گئے اور وہاں صبح کی نماز پڑھی۔ ’’ آپ چاررکعتی نمازیں دورکعت پڑھتے تھے۔ حتی کہ آپ نے مدینہ کی طرف ہجرت فرمائی۔ سفر کی نماز تو برقرار رہی لیکن حضر کی نماز میں اضافہ کردیا گیا۔ ’’اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو مدینہ کی طرف ہجرت کاحکم اس لیے دیا تھا کہ مکہ والوں نے آپ کو دعوت وتبلیغ کے کام سے روک دیا تھا۔ ماہ ربیع الاول۱۳ نبوی میں آپ وحی الٰہی کے سب سے پہلے شہر اور اللہ ورسول کے نزدیک سب سے محبوب شہر مکہ سے ہجرت کرکے مدینہ پہنچے۔ آپ اپنے رب کی اجازت سے بغرض ہجرت مکہ سے نکلے تھے ۔ اس سے پہلے برابر تیرہ سال تک پیغام الٰہی کی تبلیغ کرتے رہے اور یقین کے ساتھ اس کی دعوت دیتے رہے تھے۔ آپ کوقریش کے اکثر لوگوں اور بڑے بڑے افراد کی طرف سے دعوت کے انکار کاہی واسطہ رہا اور آپ کو شدید ایذائوں سے دوچار ہونا پڑا تھا۔ ان لوگوں کابھی وہی حال ہوا جو آپ پر ایمان لائے تھے۔ معاملہ یہاں تک پہنچ گیا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کرنے کے لیے انہوں نے مکروفریب کاپروگرام تک بنا ڈالا۔ بڑے بڑے قریش دارالندوۃمیں جمع ہوئے اور مشورہ کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کیا کیا جائے۔یہ اس وقت کی بات ہے جب انہوں |