سے مت دو کہ زیادہ معاوضہ چاہو۔ اور اپنے رب کے واسطے صبر کرو۔‘‘ (’’اٹھو۔پھر ڈرائو‘‘) کامعنی یہ ہے کہ آپ شرک سے ڈراتے ہیں اور توحید کی طرف بلاتے ہیں۔(’’اور اپنے رب کی بڑائیاں بیان کرو‘‘) یعنی توحید کے ذریعہ اس کی تعظیم کرو۔(’’اور بتوں سے الگ رہو‘‘) یعنی بتوں اور بت پرستوں دونوں سے کوئی تعلق نہ رکھو۔ ………………… شرح ………………… ’’ یعنی آپ لوگوں کو شرک سے ڈراتے اور انہیں اللہ تعالیٰ کی ربوبیت الوہیت اور اس کے اسماء وصفات میں توحید کی دعوت دیتے تھے۔ جیہ خطاب اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے ہے۔ ’’اللہ تعالیٰ اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دے رہا ہے کہ وہ کوشش کریں۔ سرگرمی کا مظاہرہ کریں لوگوں کو شرک سے خبردار کریں اور اس سے انہیں ڈرائیں۔شیخ رحمہ اللہ نے آیات کی تفسیر کردی ہے۔ ٭٭٭ اَخَذَ عَلَی ہَذَا عَشْرَ سِنِیْنَ یَدْعُوْا اِلَی التَّوْحِیْدِ وَبَعْدَ الْعَشْر عُرِجَ بِہِ اِلَی السَّمَائِ، وَفُرِضَتْ عَلَیْہِ الصَّلَوَاتُ الْخَمْسُ ، وَصَلَّی فِی مَکَّۃَ ثَلاَثَ سِنِیْنَ ، وَبَعْدَہَا اُمِرَ بِالْہجْرَۃِ اِلَی الْمَدِیْنَۃِ۔ اس طرح آپ دس سال تک توحید کی دعوت دیتے رہے۔دس سال کے بعد آپ کو آسمان کی طرف لے جایا گیا۔اور آپ پرپانچوں نمازیں فرض کی گئیں۔ آپ نے مکہ میں تین سال نماز پڑھی۔اس کے بعد آپ کو مدینہ کی طرف ہجرت کرنے کاحکم ہوا۔ ………………… شرح ………………… یعنی نبی صلی اللہ علیہ وسلم دس سال تک اللہ عزوجل کی توحید اور عبادت میں اس کے یکتا ہونے کی دعوت دیتے رہے۔ |