کے سلسلے میں آدمی کی اعانت کرنا، اسے سواری پرسوار کرادینا یااس کے لیے سواری پر اس کاسامان چڑھادینا صدقہ ہے۔‘‘ایک آدمی جس کی تم اعانت کرتے ہو، اس کے ساتھ اس کا سامان لدوادیتے ہو یااسے راستہ بتا دیتے ہو یااس جیسے کام سب کے سب ’’احسان‘‘ ہیں۔ یہ ساری باتیں اس’’احسان‘‘ سے متعلق ہیں جو اللہ تعالیٰ کے بندوں کے ساتھ کیا جاتا ہے۔ جہاں تک اللہ تعالیٰ کی ’’عبادت میں احسان‘‘ کی بات ہے تو وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے مطابق یہ ہے کہ ’’تم اللہ تعالیٰ کی ایسے عبادت کرو جیسے کہ تم اسے دیکھ رہے ہو۔‘‘ بندے کی ایسی عبادت’’عبادتِ طلب وشوق‘ ‘ہے۔ اور عبادتِ طلب وشوق ایسی چیز ہے کہ انسان اپنے آپ میں ایک ایسا جذبہ محسوس کرتا ہے جو اسے اس عبادت پر ابھارتا ہے۔کیوں کہ اس کو ایسی چیز کی طلب ہوتی ہے جو کہ اسے محبوب ہے۔ پس وہ اللہ تعالیٰ کی عبادت یوں کرتا ہے جیسے کہ وہ اسے دیکھ رہا ہو۔ چنانچہ وہ اللہ ہی کاقصد کرتا ہے، اسی کی طرف مائل ہوتا ہے اور اسی کی قربت تلاش کرتا ہے۔ ’’پس اگر تم اس کو نہیں دیکھ رہے ہو تو وہ تمہیں دیکھ رہا ہے۔‘‘یہ ’’عبادتِ خوف وفرار‘‘ ہے اور’’ احسان‘‘ میں دوسرے مقام پر ہے اگر عبادت الٰہی میں تمہیں یہ احساس نہیں ہوپاتا کہ گویا تم اسے دیکھ رہے ہو، اس کی طلب کررہے ہو اور طبیعت کو اس تک پہنچنے پر آمادہ کررہے ہو تو اس طرح عبادت کرو کہ گویاوہ تمہیں دیکھ رہا ہے۔ چنانچہ تم اللہ تعالیٰ کی عبادت اس طرح کرسکو گے جیسے تم اس سے خوف زدہ ہو، اس کی سزا اور اس کے عذاب سے بھاگ رہے ہو تصوف وسلوک والوں کے نزدیک یہ درجہ پہلے سے کم تر ہے۔ عبادتِ الٰہی کامفہوم جیسا کہ علامہ ابن القیم رحمہ اللہ نے فرمایا یہ ہے: بے اتنہا محبت ہمراہ فرطِ ذلت رحمن کی عبادت کے دوستون ہیں یہ معلوم ہوا کہ’’عبادت کی بنیاد‘‘ دوچیزوں پر ہے: انتہائی درجہ کی محبت اور انتہائی درجہ کااحساسِ بے بسی اور ذلت۔ محبت میں طلب پائی جاتی ہے اور احساسِ ذلت میں خوف وفرار۔ |