Maktaba Wahhabi

170 - 220
تو یہ ہے وہ’’احسان‘‘ جو عبادت الٰہی میں ہوتا ہے۔ انسان جب اللہ تعالیٰ کی عبادت اس طریقہ سے کرے گا تو یقینا وہ اللہ تعالیٰ کامخلص بندہ ہوگا۔ اپنی عبادت کے ذریعہ کسی ریاکاری، شہرت یالوگوں کی تعریف کاطلب گار نہیں ہوگا۔ لوگوں کواطلاع ہو یانہ ہو سب اس کے نزدیک برابر ہوگا۔ بہر حال وہ’’عبادت میں احسان‘‘ کرنے والا ہوگا۔ بلکہ اخلاص کی تکمیل تو یہ ہے کہ انسان اس بات کے لیے کوشاں رہے کہ لوگ اس کو حالت عبادت میں دیکھنے ہی نہ پائیں۔ اس کی عبادت اپنے رب کے ساتھ پوشیدہ رہے، الایہ کہ اسکے اظہار میں اسلام یامسلمان کی کوئی مصلحت ہو۔مثلاًوہ ایسا آدمی ہے کہ جس کی اتباع واقتداء کی جاتی ہے، اور وہ لوگوں پر اپنی عبادت اس لیے ظاہر کرنا چاہتا ہے کہ لوگ اس سے روشنی حاصل کریں اور اس کے مطابق چلیں۔ یاوہ اپنی عبادت کااظہار اس لیے چاہتا ہے کہ اس کے ساتھ دوست و احباب بھی عبادت کرنے لگیں تو اس میں خیر اور بھلائی ہے اور ایسی مصلحت پر توجہ بھی دینی چاہیے۔ کبھی کبھی تو اظہار پوشیدگی کی نسبت زیادہ قرینِ مصلحت ہوجاتا ہے اسی لیے اللہ تعالیٰ ان لوگوں کی تعریف فرماتا ہے جو اپنی دولت پوشیدگی اور علی الاعلان دونوں طرح سے خرچ کرتے ہیں۔جب پوشیدگی قرین مصلحت، نفع بخش اورانابت الی اللہ کابڑا سبب اور زیادہ خشوع کاباعث ہو تو رازداری سے کام لیتے ہیں۔ جب ا ظہار میں اسلام کی کوئی مصلحت دکھائی دے رہی ہو جیسے کہ اظہار سے اسلام کے قوانین اور طریقے ظاہر ہوں گے ، یامسلمانوں کی کوئی مصلحت ہو کہ وہ بھی دولت خرچ کرنے میں اقتداء کرنے لگیں گے تو وہ علی الاعلان خرچ کرتے ہیں۔مؤمن کی نظر اسی طریقہ پر ہوتی ہے جو زیادہ سے زیادہ قرینِ مصلحت ہوتا ہے۔ اور جو چیز بھی عبادت میں قرینِ مصلحت اور لائقِ منفعت ہو وہ کامل ترین اور افضل ترین ہوگی۔ اس حدیث کے اکثر حصے کی شرح گذرچکی ہے، مجموع الفتاوی والرسائل۳/۱۴۳ میں بھی اس حدیث پر ہماری ایک شرح ہے۔ ٭٭٭
Flag Counter