انسان خوب بھلائیاں کرے اور برائیوں کاروک کرے۔چنانچہ وہ بندوں کے ساتھ اپنے مال، مرتبہ، علم اور جسم کے ذریعہ خوب بھلائیاں کرے۔ مالی بھلائی یہ کہ مال خرچ کرے، صدقہ زکوۃ دے۔ سب سے عمدہ’’مالی احسان‘‘ زکوۃ ہے۔ کیوں کہ زکوۃ اسلام اور اس کی عظیم عمارت کا ایک رکن ہے۔ اس کے بغیر اسلام مکمل نہیں ہو سکتا۔یہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے محبوب نفقہ ہے۔ اس کے بعد نمبرآتاہے ان واجب نفقات کاجوانسان اپنی بیوی، والدین، بچے برادران، بھتیجے، بھانجھیوں،چچائوں، پھوپھیوں اور خالائوں وغیرہ پر صرف کرتا ہے۔ پھروہ صدقہ جو مستحقین صدقہ مساکین پر صرف کرتا ہے جیسے طالب علم وغیرہ۔ ’’مرتبے کی بھلائی اور احسان‘‘ یہ ہے کہ لوگ مختلف رتبے کے ہوتے ہیں۔ کچھ ایسے ہوتے ہیں کہ جن کی پہنچ سرکاری آدمیوں تک ہوتی ہے۔ چنانچہ انسان اپنی بھلائی رتبہ اور مرتبہ کی شکل میں خرچ کرتا ہے۔ اس کے پاس لوگ آتے ہیں اور اس سے کسی سرکاری عہدے دار کے یہاں کسی پریشانی کو ختم کرانے یاکسی فائدے کے سلسلے میں سفارش کے طالب ہوتے ہیں۔ ’’علمی احسان‘‘ یہ ہے کہ اللہ کے بندوں کے لیے علم صرف کیاجائے۔ اس طرح کہ عمومی اور خصوصی محفلوں اور نشستوں میں تعلیم کاسلسلہ شروع کیاجائے، یہاں تک کہ محفلِ قہوہ نوشی کو بھی نذر انداز نہ کیا جائے۔ کیوں کہ لوگوں کو تعلیم دینا اور سکھانا تمہارا احسان ہے چاہے تم عام مجلس ہی میں کیوں نہ رہو۔ لیکن اس سلسلے میں حکمت سے کام لو۔ ان کے اوپر بوجھ نہ بن جائو کہ جہاں بھی بیٹھولوگوں کو وعظ ونصیحت کرنے لگو۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم موقعہ دیکھ کر وعظ فرماتے اور زیادتی سے کام نہیں لیتے تھے۔ کیونکہ طبیعتیں تھک جاتی اور بے زار ہوجاتی ہیں۔ اگر بے زار ہوگئیں تو بوجھل اور کمزور ہوجائیں گی۔ ہوسکتا ہے وعظ ونصیحت کرنے والے کی طولانی سے خیر ہی کوناپسند کرنے لگیں۔ لوگوں کے ساتھ’’جسمانی احسان‘‘کیا ہے؟نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ:’’تمہارا سواری |