نزدیک آسان ہے۔ بتلا اس واسطے دی ہے تاکہ جو چیز تم سے جاتی رہے تو اس پر رنج نہ کرو اور جوچیز تم کو عطا فرمائی ہے اس پر اترائو نہیں۔ اور اللہ کسی اترانے والے شیخی باز کو پسند نہیں کرتا‘‘ نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:’’مومن کامعاملہ بھی عجیب ہے کہ اسکا تو سارا معاملہ خیر ہی خیر ہے اور یہ صرف مومن ہی کو حاصل ہے ۔ اگر اسے آسانیاں عطا ہوتی ہیں تو شکر ادا کرتا ہے اور وہ اس کے لیے خیر بن جاتا ہے ‘‘(مسلم) تقدیرکے سلسلے میں دو فرقے گمراہی کاشکار ہوئے ہیں: ’’ایک ’’جبریہ‘‘ جو کہتا ہے کہ بندہ اپنے عمل پر مجبور ہے، اس کو عمل کے سلسلے میں کوئی ارادہ یاقوت حاصل نہیں ہے۔ دوسرا’’قدریہ‘‘ ہے جس کاعقیدہ یہ ہے کہ بندہ مکمل اپنے ارادے اور قدرت سے عمل کرتا ہے اس کے عمل میں اللہ تعالیٰ کی مشیت اور قدرت کاکوئی دخل نہیں ہوتا ہے۔ پہلے’’فرقہ جبریہ‘‘ کے عقیدے کاابطال شرعی اور واقعاتی دونوں طرز پر کیا گیا ہے۔ ’’شرعی ابطال‘‘ تو یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بندے کے حق میں ارادہ اور مشیت ثابت کی ہے اور ان کی طرف عمل کومنسوب کیا ہے چنانچہ فرمایا ہے: {مِنْکُمْ مَّنْ یُّرِیْدُ الدُّنْیَا وَمِنْکُمْ مَّنْ یُّرِیْدُ الْآخِرَۃٌ} (آل عمران: ۱۵۲) ’’تم میں سے بعض ایسے ہیں جو دنیا چاہتے ہیں اور بعض ایسے جو آخرت چاہتے ہیں۔‘‘ اورفرمایا: {وَ قُلِ الْحَقُّ مِنْ رَّبِّکُمْ فَمَنْ شَآئَ فَلْیُؤْمِنْ وَّ مَنْ شَآئَ فَلْیَکْفُرْ اِنَّآ اَعْتَدْنَا لِلظّٰلِمِیْنَ نَارًا اَحَاطَ بِہِمْ سُرَادِقُہَا} (الکہف: ۲۹) ’’اور آپ کہہ دیجئے کہ حق تمہارے رب کی طرف سے ہے سو جس کاجی چاہے ایمان لائے اور جو چاہے کافر رہے بیشک ہم نے ایسے ظالموں کے لیے آگ |