Maktaba Wahhabi

162 - 220
قبول نہ کرے لیکن اللہ تعالیٰ کے حقوق کی پامالی میں خود کے لیے تقدیر کی دلیل لائے؟ بیان کیا جاتا ہے کہ عمربن الخطاب رضی اللہ عنہ کے پاس ایک چور کامعاملہ پیش کیا گیا جس پر ہاتھ کاٹنے کافیصلہ ہوچکا تھا۔ چنانچہ عمر رضی اللہ عنہ نے ہاتھ کاٹنے کاحکم دے دیا۔ اس چورنے کہا:’’امیرالمومنین ذرا رکئے، میں نے چوری تقدیر کے مطابق کی ہے۔‘‘ عمر نے کہا:’’اور ہم بھی ہاتھ تقدیر کے مطابق ہی کاٹ رہے ہیں۔‘‘ ’’ایمان بہ تقدیر کے چند عظیم فائدے‘‘ ذکر کیے جاتے ہیں۔ اول: اسباب ووسائل کو بروئے کار لاتے وقت اللہ تعالیٰ پر بھروسہ، نہ کہ خود اسباب اور وسائل پر، کیوں کہ ہر چیز تقدیر کے مطابق ہوتی ہے۔ دوم: اپنا مقصد حاصل کرکے انسان کو اپنے آپ پر غرور نہیں ہوتا۔ کیوں کہ اس کاحصول اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک نعمت ہے بایں طور کہ اللہ تعالیٰ نے بھلائی اور کامیابی کے اسباب اور وسائل مقرر فرمائے ہیں۔ اپنے آپ پر غرور اس نعمت کی شکر گزاری سے غافل کردیتا ہے۔ سوم: تقدیر کے مطابق جو حالات بھی اس کے اوپر طاری ہوتے ہیں ان پر اطمینان اور قلبی سکون رہتا ہے۔ چنانچہ کسی پسندیدہ چیز کے نہ ملنے یاناپسندیدہ چیز سے دوچار ہونے پر اسے قلق نہیں ہوتا۔ کیوں کہ یہ ساری چیزیں اس اللہ کے فیصلے سے ہوتی ہیں جس کو آسمان اور زمین کی بادشاہی حاصل ہے اور ان کو لامحالہ ہونا ہی ہے۔ اسی سلسلے میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: {مَا اَصَابَ مِنْ مُّصِیبَۃٍ فِی الْاَرْضِ وَلَا فِیْ اَنْفُسِکُمْ اِِلَّا فِیْ کِتَابٍ مِّنْ قَبْلِ اَنْ نَّبْرَاَہَا اِِنَّ ذٰلِکَ عَلَی اللّٰہِ یَسِیْرٌo لِکَیْلَا تَاْسَوْا عَلٰی مَا فَاتَکُمْ وَلَا تَفْرَحُوْا بِمَا آتَاکُمْ وَاللّٰہُ لَا یُحِبُّ کُلَّ مُخْتَالٍ فَخُورٍo} (الحدید: ۲۲۔۲۳) ’’کوئی مصیبت نہ دنیا میں آتی ہے نہ خاص تمہاری جانوں میں مگر وہ ایک کتاب میں لکھی ہے قبل اس کے کہ ہم ان جانوں کو پیدا کریں۔ بے شک یہ اللہ کے
Flag Counter