غیر موافق چیزوں کارخ نہیں کرتا ۔ پھر رخ نہ کرنے پر تقدیر سے دلیل لیتا ہے۔تو آخر دینی معاملات میں کیوں نفع بخش چیزوں سے ہٹ کر مضرت رساں چیزوں کی طرف رخ کرتا ہے پھر تقدیر سے دلیل لیتا ہے؟ کیا دونوں کامعاملہ ایک جیسا نہیں ہے؟ ایک مثال سے اس کی خوب وضاحت ہوتی ہے۔ کسی کے سامنے دوراستے ہوں۔ایک راستہ ایک ایسے شہر تک جاتا ہو جس میں ہنگامہ، قتل وغارت، بے عزتی، خوف اور بھوک ہو۔ دوسرا ایسے شہر تک جاتا ہو جہاں نظام، پائیدارامن، اچھی زندگی ، جان ومال اور عزت وناموس کااحترام ہو، تو وہ کون ساراستہ اختیار کرے گا؟ ظاہر ہے کہ وہی دوسرا راستہ اپنائے گا جو اسے انتظام وسکون والے شہر تک لے جاتا ہو۔ کسی صاحبِ عقل کے لیے یہ ممکن ہی نہیں کہ وہ ہنگامہ اور خوف والے شہر کاراستہ اپنائے اور تقدیر کو دلیل میں پیش کرے۔ پھر کیوں آخرت کے معاملے میں وہ جنت کو چھوڑ کر جہنم کے راستے پر چلتا ہے اور تقدیر کو دلیل میں پیش کرتا ہے؟ دوسری مثال: ہم مریض کو دیکھتے ہیں کہ اسے دواپینے کاحکم ہے۔ چنانچہ وہ جی نہ چاہتے ہوئے بھی اسے پیتا ہے، اور ایسی غذائوں سے پرہیز کرتا ہے جو نقصان پہنچا سکتی ہیں، حالانکہ جی چاہتا ہے کہ انہیں استعمال کرے۔ یہ ساری پابندی اور پرہیز شفا اور سلامتی کی طلب میں برداشت کرتا ہے۔یہ ممکن نہیں ہے کہ وہ دواپینا چھوڑ دے یاایسی غذائیں استعمال کرنے لگے جو اسے نقصان پہنچا سکتی ہیں، اور تقدیر کو بطور دلیل پیش کرے۔ پھر کیوں انسان اللہ اور اس کے رسول کے احکام چھوڑتا ہے یاان کی طرف سے منع کئے ہوئے احکام سے پرہیز نہیں کرتا، پھر تقدیر کو دلیل میں پیش کرتا ہے؟ ہفتم:ترک واجبات یاارتکاب گناہ پر تقدیر سے دلیل دینے والے شخص کے ساتھ اگر کوئی دوسرا شخص زیادتی کرے یا اس کا مال چھین لے یا اس کی عزت و ناموس پر ڈاکہ ڈالے اور کہے کہ مجھے برابھلا مت کہو، کیوں کہ میرا یہ ظلم تقدیر کے مطابق ہے، تو وہ اس کی دلیل کو قبول نہیں کرے گا۔ پھر یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ وہ اپنے اوپر توکسی کے ظلم پر تقدیر سے استدلال کو |