’’سوجس نے (اللہ کی راہ میں) مال دیا اور ڈرا اور اچھی بات کو سچی سمجھا تو ہم اسکو راحت کی چیز کے لیے آسانی فراہم کریں گے۔‘‘ ’’مسلم‘‘ کی ایک روایت میں ہے کہ:’’ہر شخص جس عمل کے لیے پیدا کیا گیا ہے اس میں اس کے لیے سہولت فراہم کی گئی ہے۔‘‘ چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عمل کرنے کاحکم دیا ہے اور صرف تقدیر پر انحصار اور بھروسہ کرلینے سے منع فرمایا ہے۔ چہارم: اللہ تعالیٰ نے بندے کو(بعض چیزوں کا) حکم دیا ہے اور(بعض سے) روکا ہے اور اس کو اتنا ہی مکلّف کیا ہے جتنی کہ اس کی استطاعت ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: {فَاتَّقُوْااللّٰہَ مَااسْتَطَعْتُمْ} (القصص: ۱۶) ’’تو جہاں تک تم سے ہوسکے اللہ سے ڈرتے رہو۔‘‘ اور فرمایا: {لَایُکَلِّفُ اللّٰہُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَہَاo} (البقرہ: ۲۸۶) ’’اللہ کسی شخص کو مکلّف نہیں بناتا مگر اسی کاجو اس کی طاقت اور اختیار میں ہو۔‘‘ اگر بندہ فعل پر مجبور کردیاگیا ہو تا تو وہ ایسی چیز کامکلّف ہوجاتا جس سے چھٹکاراپالینا اس کی استطاعت میں نہ ہوتا۔ اور یہ باطل ہے۔ اسی وجہ سے جب نادانی یابھول چوک یامجبوری میں اس سے گناہ صادر ہوتا ہے تو اس پر کوئی گناہ نہیں ،کیوں کہ وہ معذور ہے۔ پنجم:’’تقدیر‘‘ ایک پوشیدہ راز ہے، اس کاعلم اس کے واقع ہوجانے کے بعد ہی ہوسکتا ہے اور بندہ جو کچھ کرتا ہے تو اس کام کاارادہ کام سے پہلے ہوتا ہے۔ چنانچہ اس کا ارادئہ فعل اس بات پر مبنی نہیں ہوتا کہ اس نے اللہ تعالیٰ کی تقدیر جان لی ہے۔ لہٰذا تقدیر سے اس کادلیل لینا کالعدم ہوجاتا ہے کیوں کہ انسان جس چیز کو جانتا ہی نہ ہو اس میں اس کے لیے دلیل ہونا کیامعنی رکھتا ہے؟ ششم: ہم دیکھتے ہیں کہ انسان دنیاوی معاملات میں ایسی چیزوں کی طرف لپکتا ہے جو اس کے موافق ہوں یہاں تک کہ وہ انہیں حاصل کرلیتا ہے۔ اور ان سے ہٹ کر اپنے لیے |