قُلْ ہَلْ عِنْدَکُمْ مِّنْ عِلْمٍ فَتُخْرِجُوْہُ لَنَا اِنْ تَتَّبِعُوْنَ اِلَّا الظَّنَّ وَ اِنْ اَنْتُمْ اِلَّا تَخْْرُصُوْنَo} (الانعام: ۴۸ا) ’’یہ مشرک لوگ یوں کہنے کو ہیں کہ اگر اللہ چاہتا تو نہ ہم شرک کرتے نہ ہمارے باپ دادا، اور نہ ہم کسی چیز کو حرام کہہ سکتے۔ اسی طرح جو لوگ ان سے پہلے ہوچکے ہیں اُنہوں نے بھی تکذیب کی تھی حتیٰ کہ انہوں نے ہمارے عذاب کامزہ چکھا۔ آپ کہئے کہ تمہارے پاس کوئی دلیل ہے تو اس کو ہمارے روبرو ظاہر کرو۔ تم لوگ محض خیالی باتوں پر چلتے ہواورتم بالکل اٹکل سے باتیں بناتے ہو۔‘‘ اگر’’تقدیر‘‘میں ان کے لیے دلیل ہوتی تو اللہ تعالیٰ اُنہیں اپنا عذاب نہ چکھاتا۔ دوم: اللہ تعالیٰ کاارشاد ہے: {رُسُلًا مُّبَشِّرِیْنَ وَ مُنْذِرِیْنَ لِئَلَّا یَکُوْنَ لِلنَّاسِ عَلَی اللّٰہِ حُجَّۃٌ بَعْدَ الرُّسُلِ وَ کَانَ اللّٰہُ عَزِیْزًا حَکِیْمًاo} (النساء: ۱۶۵) ’’ان سب کو خوش خبری دینے والے اور خوف سنانے والے پیغمبر بنا کر اس لیے بھیجاتاکہ لوگوں کے پاس اللہ کے سامنے ان پیغمبروں کے بعد کوئی عذر باقی نہ رہے اور اللہ پورے زوروالا بڑی حکمت والا ہے۔‘‘ اگر’’تقدیر‘‘ مخالفین کے لیے کوئی دلیل ہوتی تو رسولوں کے بھیج دینے سے وہ ختم نہ ہوجاتی۔ کیوں کہ ان کے بھیجنے کے بعد بھی مخالفت تو اللہ تعالیٰ کی تقدیر ہی سے واقع ہوگی۔ سوم: ’’بخاری‘‘ اور ’’مسلم‘‘ میں علی بن أبی طالب رضی اللہ عنہ سے ایک روایت ہے، الفاظ ’’بخاری‘‘ کے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا’’تم لوگوں میں کوئی ایسا نہیں ہے جس کاکہ جہنم یاجنت میں مقام نہ لکھ دیا گیا ہو۔‘‘ لوگوں میں سے کسی نے کہا: کیا ہم بھروسہ نہ کرلیں یارسول اللہ!؟ آپ نے فرمایا’’ نہیں، عمل کرتے رہو۔ ہرشخص کو سہولت دی ہوئی ہے۔‘‘ پھر آپ نے یہ قرأت فرمائی: {فَأَمَّا مَنْ أَعْطٰیo وَاتَّقٰی وَصَدَّقَ بِالْحُسْنٰیo فَسَنُیَسِّرُہٗ لِلْیُسْرٰیo} (اللیل: ۵۔ ۷) |