اور فرمایا: {لَا یُکَّلِّفُ اللَّہُ نَفْسًا إِلَّاوُسْعَھَالَھَا مَاکَسَبَتْ وَعَلَیْھَامَااکْتَسَبَتْ} (البقرہ: ۲۸۶) ’’اللہ کسی شخص کو مکلف نہیں بناتا مگر اسی کاجو اس کی قدرت میں ہوا اس کو ثواب بھی اسی کاملے گا جو ارادہ سے کرے، اور اس پر عذاب بھی اسی کاہوگا جو ارادہ سے کرے۔‘‘ اور واقعہ یہ ہے کہ ہر انسان جانتا ہے کہ اسے مشیت اور قدرت حاصل ہے جس کے مطابق کہ وہ کوئی کام کرتا یا چھوڑتا ہے اور باارادہ کام ، جیسے چلنا، اور بغیر ارادہ کام، جیسے کپکپانا، کے درمیان فرق کرتا ہے ۔ لیکن بندے کی مشیت اور قدرت اللہ تعالیٰ کی مشیت اور قدرت کے تابع ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: {لِمَنْ شَآئَ مِنْکُمْ أَنْ یَّسْتَقِیْمٌ وَّمَاتَشَآؤُنَ إِلَّاأَنْ یَّشَائَ اللّٰہُ رَبُّ الْعَالَمِیْنَo} (التکویر: ۲۸۔ ۲۹) ’’ایسے شخص کے لیے جو تم میں سے سیدھا چلنا چاہے۔ اور تم بغیر اللہ رب العالمین کے چاہے کچھ نہیں چاہ سکتے۔‘‘ اور چونکہ ساری کائنات اللہ کی ملکیت ہے اس لیے اس کی ملکیت میں کوئی چیز ایسی نہیں ہوسکتی جو اس کے علم ومشیت کے بغیر ہو۔ ہماری وضاحت کے مطابق’’تقدیر پر ایمان‘‘ لانا ترکِ واجبات اور ارتکابِ گناہ پر بندے کے لیے دلیل فراہم نہیں کرتا لہٰذا مذکورہ اعمال کے لیے’’تقدیر‘‘ سے دلیل لینا بہ چند وجوہ باطل ہے: اول: اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: {سَیَقُوْلُ الَّذِیْنَ اَشْرَکُوْا لَوْشَآئَ اللّٰہُ مَآ اَشْرَکْنَا وَلَآ اٰبَآؤُنَا وَ لَا حَرَّمْنَا مِنْ شَیْئٍ کَذٰلِکَ کَذَّبَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِہِمْ حَتّٰی ذَاقُوْا بَاْسَنَا |