Maktaba Wahhabi

155 - 220
کی خدمت میں حاضر ہوتے تھے۔ غور سے آپ کی قرأت سنی تھی اور اپنی قوم میں ڈرانے والے بن کرواپس آگئے تھے۔ اس کے باوجود وہ ہم سے پوشیدہ ہیں۔ اسی سلسلے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: {یٰبَنِیْٓ اٰدَمَ لَا یَفْتِنَنَّکُمُ الشَّیْطٰنُ کَمَآ اَخْرَجَ اَبَوَیْکُمْ مِّنَ الْجَنَّۃِ یَنْزِعُ عَنْہُمَا لِبَاسَہُمَا لِیُرِیَہُمَا سَوْاٰتِہِمَا اِنَّہٗیَرٰیکُمْ ہُوَ وَ قَبِیْلُہٗ مِنْ حَیْثُ لَا تَرَوْنَہُمْ اِنَّا جَعَلْنَا الشَّیٰطِیْنَ اَوْلِیَآئَ لِلَّذِیْنَ لَا یُؤْمِنُوْنَo} (الاعراف: ۲۷) ’’اے اولاد آدم! شیطان تم کو کسی خرابی میں نہ ڈال دے جیسا کہ اس نے تمہارے ماں باپ کو جنت سے باہر کرا دیا ایسی حالت سے کہ ان کا لباس بھی ان سے اتروا دیا تاکہ ان کو ان کا چھپانے کے لائق بدن دکھائی دینے لگے۔ بے شک وہ اس کا لشکر تم کو ایسے طور پر دیکھتا ہے کہ تم ان کو نہیں دیکھتے ہو۔ ہم شیطانوں کو ایسے لوگوں کا رفیق ہونے دیتے ہیں جو ایمان نہیں لاتے۔‘‘ چونکہ مخلوق ہر موجود شیٔ کا ادراک نہیں کرسکتی اس لیے جائز نہیں کہ وہ امور غیب کے ان ثابت شدہ امور کا انکار کر دے جن کا انہیں ادراک نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ کی حکمت اور اس کے سابق علم کے مطابق کائنات کے لیے اس کی طرف سے مقررہ اندازے کو’’تقدیر‘‘ کہتے ہیں۔ ’’ایمان بہ تقدیر‘‘میں چند باتیں آتی ہیں: اول:اس بات پر ایمان لانا کہ اللہ تعالیٰ کو ازل سے ابد تک ہرچیز کااجمالی اور تفصیلی علم ہے، چاہے ان کاتعلق اس کے اپنے افعال سے ہویا اس کے بندوں کے افعال سے۔ دوم: اس بات پر ایمان لانا کہ اللہ تعالیٰ نے یہ تمام چیزیں لوح محفوظ میں لکھ دی ہیں۔ انہیں دوباتوں کے متعلق اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے: {اَلَمْ تَعْلَمْ اَنَّ اللّٰہَ یَعْلَمُ مَا فِی السَّمَآئِ وَ الْاَرْضِ اِنَّ ذٰلِکَ فِیْ
Flag Counter