اپنے بستر پر ویسے ہی ہوتا ہے جیسے کہ ہونا چاہئے۔ معلوم ہونا چاہئے کہ نیند موت کی بہن ہے، اسی لیے اللہ تعالیٰ نے اس کو’’وفات‘‘ کے نام سے موسوم کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے۔ {اللّٰہُ یَتَوَفَّی الْاَنْفُسَ حِیْنَ مَوْتِہَا وَالَّتِیْ لَمْ تَمُتْ فِیْ مَنَامِہَا فَیُمْسِکُ الَّتِیْ قَضَی عَلَیْہَا الْمَوْتَ وَیُرْسِلُ الْاُخْرَی اِِلٰی اَجَلٍ مُّسَمًّی} (الزمر: ۴۲) ’’اللہ ہی وفات دیتا ہے جانوں کو ان کی موت کے وقت اور ان جانوں کو بھی جن کی موت نہیں آئی ان کے سونے کے وقت۔ پھر ان جانوں کو توروک لیتا ہے جن پر موت کاحکم فرماچکا ہے اور باقی جانوں کو ایک معین میعاد کے لیے رہا کردیتا ہے۔‘‘ عقلی طور پر دلیل یہ ہے کہ سونے والااپنی نیند میں ایسے خواب دیکھتا ہے جو حق اورواقع کے مطابق ہوتے ہیں۔ بسا اوقات دیکھنے والا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ان ہی کی شکل میں دیکھتا ہے۔ اور جس نے ان کو ان کی شکل میں دیکھا اس نے ان کو حقیقت میں دیکھا ہے اس کے باوجود کہ وہ اپنے کمرے میں اپنے بستر پر ہوتا ہے اور جو کچھ اس نے دیکھا ہے وہ اس سے دور ہوتا ہے۔ دنیا کے حالات میں جب ایسا ممکن ہوسکتا ہے تو آخرت کے حالات میں ایسا کیوں نہیں ہوسکتا؟ رہ گئی اس غلط نظریے پران کی یہ دلیل کہ میت کو قبر کھول کردیکھاجائے تو وہ مردہ ایسے ہی موجود ہوگا اور وسعت وتنگی کے لحاظ سے بھی قبرمیں کوئی تبدیلی نظر نہیں آئے گی، تو اس کاجواب کئی طرح سے دیا جاسکتا ہے۔ اول: شرع جو کچھ کہتی ہے اسکا اس طرح کے لڑکھڑاتے ہوئے شکوک وشبہات سے توڑ کرنا جائز نہیں ہے۔ شکوک وشبہات بھی ایسے کہ اگر توڑ کرنے والا خود شرع میں غوروفکر کاحق ادا کرے تو ان شبہات کابطلان وہ خود محسوس کرلے گا۔ شاعر نے کہا ؎ |