اور فرمایا: {وَنَزَّلْنَا مِنْ السَّمَآئِ مَائً مُبَارَکًا فَاَنْبَتْنَا بِہٖ جَنّٰتٍ وَّحَبَّ الْحَصِیدِo وَالنَّخْلَ بَاسِقَاتٍ لَہَا طَلْعٌ نَضِیدٌo رِزْقًا لِلْعِبَادِ وَاَحْیَیْنَا بِہٖ بَلْدَۃً مَّیْتًا کَذٰلِکَ الْخُرُوْجُo} (قٓ: ۹۔۱۱) ’’اور ہم نے آسمان سے مبارک پانی برسایا پھر اس سے بہت سے باغ گائے اور کھیتی کاغلہ اور لمبی لمبی کھجور کے درخت جن کے گھپے خوب گوندھے ہوئے ہوتے ہیں بندوں کے رزق دینے کے لیے اور ہم نے اس کے ذریعہ سے مردہ زمین کو زندہ کیا اس طرح نکلنا ہوگا۔‘‘ کچھ کج فہم گمراہی کاشکار ہوگئے ہیں چنانچہ انہوں نے قبر کے عذاب اور ثواب کاانکار کیا ہے۔ انہوں نے یہ سمجھا کہ چونکہ یہ واقع کے خلاف ہے اس لیے ناممکن ہے ۔انہوں نے کہا کہ اگر مردے کو قبرکھول کردیکھا جائے تو وہ ویسے ہی ملے گا جیسا کہ وہ تھا، قبر میں بھی تنگی اور وسعت کے تعلق سے کوئی تبدیلی نہیں ہوگی۔ یہ نظریہ شرعی،محسوساتی اور عقلی طور پر باطل ہے۔ شرعی طور پروہ نصوص ہیں جو قبر کے عذاب اور ثواب کے ثبوت پر دلالت کرتی ہیں اور ’’ایمان بہ یوم آخر‘‘ کے فقرہ(ب) میں گزر چکی ہیں۔ ’’صحیح بخاری ‘‘میں ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے ، کہتے ہیں کہ ’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ کے کسی باغ سے نکلے تو آپ نے دوآدمیوں کی آواز سنی جو اپنی قبروں میں عذاب دئیے جارہے تھے۔ اسی حدیث میں ہے کہ ان میں سے ایک آدمی پیشاب سے بچائو نہیں کرتا تھا۔‘‘ دوسری روایت میں ہے کہ:’’(اپنے پیشاب سے) اور دوسرا چغلیاں کھا تا پھرتا تھا۔‘‘ محسوساتی اور تجرباتی طور پر دلیل یہ ہے کہ سونے والا اپنے خواب میں دیکھتا ہے کہ وہ کسی وسیع خوبصورت جگہ سے لطف اندوز ہورہا ہے۔ یایہ کہ وہ تنگ وحشت ناک جگہ میں ہے اور پریشانی محسوس کررہا ہے۔ کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ وہ جوکچھ دیکھ رہا ہوتا ہے اس کی وحشت ناکی اور پریشانی کی وجہ سے بیدار بھی ہوجاتا ہے ۔ اس کے باوجود اپنے کمرے میں |