لَتُنَبَّؤُنَّ بِمَا عَمِلْتُمْ وَذٰلِکَ عَلَی اللّٰہِ یَسِیْرٌo} (التغابن: ۷) ’’یہ کافر یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ ہرگز دوبارہ زندہ نہ کئے جائیں گے ۔ آپ کہہ دیجئے کیوں نہیں ،اللہ ضرور دوبارہ زندہ کئے جائو گے پھر جو کچھ تم نے کیا ہے تم کو سب جتلا دیاجائے گا اور یہ اللہ کو آسان ہے۔‘‘ تمام آسمانی کتابیں زندگی بعد موت پر متفق ہیں۔ ’’محسوسات کی دلیل‘‘ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس دنیا ہی میں اپنے بندوں کو یہ دکھادیا ہے کہ وہ مُردوں کو زندہ کردیتا ہے سورہ بقرہ میں اس کی پانچ مثالیں موجود ہیں۔ پہلی مثال: موسیٰ علیہ السلام کی قوم ہے، جب کہ قوم نے ان سے کہا تھا: {لَنْ نُّؤْمِنَ لَکَ حَتّٰی نَرَی اللّہَ جَہْرَۃً} (البقرہ: ۵۵) ’’ہم ہر گزنہ مانیں گے تمہارے کہنے سے یہاں تک کہ ہم دیکھ لیں اللہ کو علانیہ طور پر۔‘‘ تو اللہ تعالیٰ نے انہیں موت دے دی ، پھر زندہ کردیا۔ اسی سلسلے میں اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا ہے: {وَاِذْ قُلْتُمْ یٰمُوْسٰی لَنْ نُّؤمِنَ لَکَ حَتّٰی نَرَی اللّٰہَ جَہَرۃً فَاَخَذَتْکُمُ الصّٰعِقَۃُ وَاَنْتُمْ تَنْظُرُوْنَo ثُمَّ بَعَثْنٰکُمْ مِّنْ بَعْدِ مَوْتِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَشْکُرُوْنَo} (البقرہ: ۵۵۔۵۶) ’’اور جب تم لوگوں نے کہا کہ اے موسیٰ ہم ہر گزنہ مانیں گے تمہارے کہنے سے یہاں تک کہ ہم دیکھ لیں اللہ کو علانیہ طور پر۔ سو آپڑی تم پر کڑک بجلی اور تم آنکھوں سے دیکھ رہے تھے۔ پھر ہم نے تم کو زندہ اٹھایا تمہارے مرجانے کے بعد اس توقع پر کہ تم احسان مانو گے۔‘‘ دوسری مثال: اس مقتول کاقصہ ہے جس کے سلسلے میں بنی اسرائیل میں جھگڑا ہو ا تو اللہ تعالیٰ نے انہیں حکم دیا کہ وہ ایک گائے ذبح کریں اور مقتول کو گائے کے کسی حصے سے ضرب |