اگر عمل رائی کے دانہ کے برابر بھی ہوگا تو ہم اس کو حاضر کردیں گے اور ہم حساب لینے والے کافی ہیں۔‘‘ ابنِ عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’بے شک اللہ تعالیٰ مؤمن کو قریب کرے گا اور اس کے اوپر(اپنے رحم کا) بازوڈال کراسے ڈھانک لے گا۔ پھر فرمائے گا: کیا تم فلاں گناہ جانتے ہو؟ کیافلاں گناہ جانتے ہو؟ وہ کہے گا: ہاں اے پروردگار، یہاں تک کہ جب اس سے اس کے گناہوں کااعتراف کرالے گا اور اس مؤمن کو یقین ہوجائے گا کہ وہ برباد ہوگیا۔ تو اللہ تعالی فرمائے گا: تمہارے لیے میں نے اس کو دنیا میں پوشیدہ رکھاتھا، آج تمہارے لیے اس کو معاف کرتا ہوں، چنانچہ اسے اس کی نیکیوں کی کتاب دی جائے گی۔ کفار اور منافقین کامعاملہ یہ ہوگا کہ تمام مخلوق کی موجودگی میں ان کے متعلق اعلان کیاجائے گا کہ یہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنے رب کے تعلق سے جھوٹا برتائو کیاتھا۔ ہوشیار۔ ظالموں پر اللہ کی لعنت ہے:‘‘(متفق علیہ) صحیح حدیثِ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ہے کہ:’’جو نیکی کاارادہ کرتا ہے ، پھر اس پر عمل کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اپنے یہاں اس کے لیے دس گنا سے لے کر سات سوگنا، بلکہ اس سے بھی کہیں زیادہ نیکیاں لکھتا ہے۔ اور جو برائی کاارادہ کرتا ہے ، پھر اس پر عمل کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اسکے لیے ایک برائی لکھتا ہے۔‘‘ اعمال کے حساب کتاب اور ان پر بدلہ وجزاء کے سلسلے میں مسلمانوں کااجماع ہے۔ حکمت کاتقاضہ بھی ہے کہ حساب ہو اور بدلہ ملے ۔ کیوں کہ اللہ تعالیٰ نے کتابیں اتاریں، رسول بھیجے، جو شریعت رسول لائے اس کو قبول کرنا اور اسکے واجبات پر عمل کرنا بندوں پر فرض قرار دیا ، اس کے مقابلہ میں آنے والوں کے ساتھ قتال کرنا واجب ٹھہرایا، ان کی جان، ان کی آل اولاد، ان کی عورتوں اور مال دولت کو حلال ٹھہرایا۔ اگر حساب کتاب، جزاء وبدلہ نہ ہو تو یہ سارے بکھیڑے بے فائدہ ہوں گے، اللہ تعالیٰ نے اپنے اس ارشاد میں اشارہ فرمایا ہے: |