چہارم: ان کتابوں کے ان احکام کے مطابق عمل کرنا جو منسوخ نہیں ہیں، انہیں قبول وتسلیم کرنا۔ چاہے ہم ان کی حکمت سمجھ سکیں۔ یا نہ سمجھ پائیں۔ سابقہ تمام کتابیں قرآن عظیم کے ذریعہ منسوخ ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: {وَ اَنْزَلْنَآ اِلَیْکَ الْکِتٰبَ بِالْحَقِّ مُصَدِّقًا لِِّمَا بَیْنَ یَدَیْہِ مِنَ الْکِتٰبِ وَ مُہَیْمِنًا عَلَیْہِ } (المائدہ: ۴۸) ’’اور ہم نے یہ کتاب آپ کے پاس بھیجی ہے جو خود بھی صدق کے ساتھ موصوف ہے اور اس سے پہلے جو کتابیں ہیں ان کی بھی تصدیق کرتی ہے اور ان پر غالب ہے۔‘‘ (’’مھیمنا علیہ‘‘) کا معنی ہے (’’حاکما علیہ ‘‘) یعنی ’’ان پرغلبہ رکھنے والا’’(مراد ہے احکام میں)۔ اس بنیاد پر سابقہ کتابوں کے کسی بھی حکم پر عمل اسی وقت ہوگا جب کہ وہ صحیح طور پر ثابت ہو اور قرآن نے اسے برقرار رکھا ہو۔ ’’ایمان بالکتب‘‘ سے چندعظیم فائدے حاصل ہوتے ہیں: اول: اس بات کایقین حاصل ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی اپنے بندوں پر کتنی عنایتیں ہیں۔ وہ اس طرح کہ اس نے ہر قوم کے لیے ایک ایسی کتاب نازل فرمائی ہے جس کے ذریعہ وہ انہیں ہدایت دیتا ہے۔ دوم: یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ شریعت الٰہی حکمت کے ساتھ ہے ۔ وہ اس طرح کہ اس نے ہر قوم کے لیے ان کے مناسبِ حال ہی شریعت بنائی ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: {لِکُلٍ جَعَلْنَا مِنْکُمْ شِرْعَۃً وَّمِنْہَاجًا} (المائدہ:۴۸) ’’تم میں سے ہر ایک کے لیے ہم نے خاص شریعت اور خاص طریقہ تجویز کیا تھا۔‘‘ سوم: اس سلسلے میں نعمت الٰہی کا شکر۔ جو تبلیغ کے لیے بھیجا جائے اس کو ’’رسول‘‘ اور ’’پیغمبر‘‘ کہتے ہیں۔ |