ہے، تم بھی اسے محبوب بنائو۔ چنانچہ جبریل بھی اسے محبوب بنا لیتے ہیں۔ پھر جبریل آسمان والوں میں اعلان کرتے ہیں کہ بے شک اللہ نے فلاں کو محبوب بنا لیا ہے، تم لوگ بھی اسے محبوب بنائو۔ چنانچہ آسمان والے بھی اس کو محبوب بنا لیتے ہیں۔ پھر زمین میں اس شخص کے لیے مقبولیت مقدر کر دی جاتی ہے۔‘‘ ’’بخاری شریف‘‘ ہی میں انہیں سے مروی ہے۔ انہوں نے کہا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جب جمعہ کا دن آتا ہے تو مسجد کے ہر دروازے پر فرشتے یکے بعد دیگرے داخل ہونے والوں کا نام درج کرتے رہتے ہیں۔ جب امام (منبر پر) بیٹھ جاتا ہے تو رجسٹر بند کر دیتے ہیں اور آکر خطبہ سننے لگتے ہیں۔‘‘ یہ بیانات صریح ثبوت ہیں کہ فرشتے جسمانی وجود رکھتے ہیں نہ یہ کہ ان سے مراد معنوی قوتیں ہیں جیسا کہ گمراہوں کا نظریہ ہے۔ انہیں نصوص و بیانات کے مطابق مسلمانوں کا اجماع ہے۔ ’’کتاب‘‘ مکتوب (لکھی ہوئی چیز) کے معنی میں ہے۔ یہاں وہ ’’کتابیں‘‘ مراد ہیں جنہیں اللہ نے مخلوق پر کرم فرماتے ہوئے ان کی ہدایات کے لیے اپنے رسولوں پر نازل فرمایا تھا تاکہ ان کے ذریعہ سے وہ اپنی دینی ودنیوی خوش بختی حاصل کرسکیں۔ ’’ایمان بالکتب‘‘ (کتابوں پر ایمان‘‘) میں چارچیزیں آتی ہیں: اول: اس بات پر ایمان کہ ان کانزول حقیقتاً اللہ تعالی کی طرف سے ہوا ہے۔ دوم:جن کتابوں کے نام معلوم ہیں ان پر نام بنام ایمان لانا۔ جیسے قرآن جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوا۔ تو ریت جو موسیٰ علیہ السلام پر نازل ہوئی، انجیل جو عیسیٰ علیہ السلام پر نازل ہوئی، اور زبور جو داود علیہ السلام کو عطا کی گئی۔ جن کتابوں کے نام ہم نہیں جانتے ان پر ہم اجمالاً ایمان لائیں گے۔ سوم: ان میں بیان کی گئی سچی خبروں کی تصدیق۔ جیسے قرآن کی خبریں اور سابقہ ان کتابوں کی خبریں جو تحریف وتبدیلی سے پاک ہیں۔ |