Maktaba Wahhabi

125 - 220
مخاطب کیا ہے۔ لیکن حقیقت جو اس معنی میں پائی جاتی ہے وہ اس ذات اور صفات سے متعلق ایک ایسی چیز ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے اپنے علم کے ساتھ مخصوص رکھا ہے۔ چنانچہ جب وہ اپنی ذات کے لیے ثابت کرتا ہے کہ وہ ’’سمیع‘‘ (سننے والا) ہے تو ’’سننے‘‘ کا اصل معنی تو معلوم ہے کہ ’’آواز کو محسوس کر لینا‘‘ سننا ہے۔ لیکن اللہ تعالیٰ کے سننے کے تعلق سے سننے کی کیفیت نامعلوم ہے۔ کیوں کہ سننے کی حقیقت جب مخلوقات تک میں جدا ہے تو خالق اور مخلوق کے درمیان جد اجدا ہونا تو انتہائی واضح ہوگا۔ جب اللہ تعالیٰ اپنے بارے میں خبر دیتا ہے کہ وہ اپنے ’’عرش پر مستوی‘‘ ہے، تو ’’مستوی‘‘ ہونے کا اصل معنی تو معلوم ہے، لیکن اللہ تعالیٰ کے تعلق سے اس کے ’’عرش پر مستوی‘‘ ہونے کی حقیقت نامعلوم ہے۔ چوں کہ مخلوق کا مستوی ہونا اور بیٹھنا مختلف طرح کا ہوتا ہے۔ چنانچہ اپنی جگہ پر جمی ہوئی کسی کرسی پر بیٹھنا کسی بد کے ہوئے اڑیل اونٹ کے کجاوے پر بیٹھنے کی طرح نہیں، تو چونکہ مخلوق کے حق میں یہ حقیقت طرح طرح کی ہوتی ہے اس لیے خالق اور مخلوق کے درمیان یہ فرق نہایت واضح اور عظیم ہوگا۔ ہمارے بیان کئے ہوئے طریقہ کے مطابق اللہ تعالیٰ پر ایمان لانا ایک مؤمن کو چند بڑے فائدے پہنچاتا ہے: اول: توحید الٰہی کا تحقق کہ غیر اللہ سے امید، خوف اور عبادت کا سلسلہ ہی منقطع ہوجاتا ہے۔ دوم: اللہ تعالیٰ کے اسماء حسنی اور صفات اعلیٰ کے پیش نظر اس سے انتہائی محبت اور غایت درجہ کی تعظیم پیدا ہوجاتی ہے۔ سوم: اس کے احکام کی پابندی اور ممنوعات سے دامن کشی کے ذریعہ اس کی عبادت کا تحقق ہوتا ہے۔ ’’فرشتے‘‘ ایک غیبی عالم ہیں، مخلوق ہیں، اللہ تعالیٰ کے عبادت گزار ہیں، ان کو ربوبیت اور الوہیت کی کوئی خصوصیت حاصل نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں نور سے پیدا کیا ہے
Flag Counter