اسماء و صفات کے معاملے میں دو فرقے گمراہ ہوئے ہیں: پہلا فرقہ’’معطلہ‘‘ کا ہے جنہوں نے تمام یا بعض اسماء و صفات سے اللہ تعالیٰ کو بے دخل کر دیا ہے، یہ سمجھ کر کہ اللہ تعالیٰ کے لیے ان کا اثبات تشبیہ سازی، یعنی اللہ تعالیٰ کو مخلوق کے مشابہ کرنا ہے۔ یہ نظریۂ بہ چند اسباب باطل ہے۔ اول: اس نظریے سے کلام الٰہی میں تناقص جیسا باطل نتیجہ لازم آتا ہے، کیوں کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات کے لیے اسماء وصفات ثابت کئے ہیں اور اس بات کی نفی کی ہے کہ اس کے مثل کوئی چیز ہو۔ پس اگر ان کا اثبات تشبیہ سازی کو مستلزم ہے تو کلام الٰہی میں تناقص اور اس کے بعض کلام سے دوسرے کی تکذیب لازم آتی ہے۔ دوم: اسم اور صفت میں دو چیزوں کے متحد ہوجانے سے دونوں چیزوں کا ایک جیسا ہوجانا لازم نہیں آتا۔ تم دو اشخاص کو دیکھتے ہو کہ دونوں انسان ہیں، سنتے، دیکھتے اور بولتے ہیں۔ لیکن اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ دونوں کی انسانیت، سننا، دیکھنا اور بولنا ایک جیسا ہو، اسی طرح حیوانوں کو دیکھو کہ ان کے اگلے پچھلے پیر اور آنکھیں ہیں۔ لیکن اس اتحاد سے یہ لازم نہیں آتا کہ ان کے پیر اور آنکھیں ایک جیسی ہوں۔ جب مخلوقات کے متحدہ ناموں اور صفتوں میں یہ فرق ظاہر ہے تو خالق اور مخلوق کے درمیان یہ فرق بہت واضح اور بڑا ہوگا۔ دوسرا فرقہ ’’مشبہہ‘‘ کا ہے جو اللہ تعالیٰ کو مخلوق کے مشابہ کرتے ہوئے اسماء و صفات ثابت کرتا ہے، یہ سمجھ کر کہ یہی نصوص کی دلالت کا تقاضہ ہے، کیوں کہ اللہ تعالیٰ بندوں کو ان کے فہم کے مطابق ہی مخاطب کرتا ہے۔ یہ نظریہ بھی بہ چند وجوہ باطل ہے: اول: اللہ تعالیٰ کی اس کی مخلوق سے مشابہت ایک امر باطل ہے، جسے عقل اور شرع دونوں باطل قرار دیتے ہیں، اور قرآن و حدیث کے بیانات کا منشا ایک امر باطل ہو، یہ ناممکن ہے۔ دوم: اصل معنی کی حیثیت سے اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو ان کے فہم کے مطابق |