سنتے اور مشاہدہ کرتے رہتے ہیں جو کہ اللہ تعالیٰ کے وجود پر قطعی طور سے دلالت کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: {وَنُوْحًا إِذْ نَادَی مِنْ قَبْلُ فَاسْتَجَبْنَا لَہٗ} (الانبیاء: ۷۶) ’’اور نوح (کا تذکرہ کیجیے) جب کہ اس (زمانہ ابراہیمی) سے پہلے انہوں نے دعا کی تو ہم نے ان کی دعا قبول کی۔‘‘ اور فرمایا: {إِذْ تَسْتَغِیْثُوْنَ رَبَّکُمْ فَاسْتَجَابَ لَکُمْ} (الانفال: ۹) ’’جب کہ تم لوگ اپنے رب سے سہارا طلب کر رہے تھے تو اس نے تمہاری سن لی۔‘‘ ’’صحیح بخاری‘‘ میں انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ: ’’ایک دیہاتی جمعہ کے دن آیا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم خطبہ دے رہے تھے۔ اس نے کہا: یا رسول اللہ! دولت برباد ہوگئی، عیال بھوک کا شکار ہوگئے، ہمارے لیے اللہ سے دعا کیجیے۔ آپ نے اپنے دونوں ہاتھ اٹھا کر دعا کی۔ چنانچہ پہاڑوں کے مانند بادل امنڈ پڑے۔ آپ اپنے منبر سے اترے بھی نہیں تھے کہ میں نے آپ کی داڑھی سے بارش ٹپکتی دیکھی۔ وہی دیہاتی یا کوئی اور شخص دوسرے جمعہ کو بھی اٹھا اور کہا: یا رسول اللہ! بنیاد گر گئی، دولت ڈوب گئی، ہمارے لیے اللہ سے دعا کیجیے۔ آپ نے دونوں ہاتھ اٹھا کر فرمایا: ’’اے اللہ! ہمارے ارد گرد، ہم پر نہیں۔‘‘ اس کے بعد آپ جدھر بھی اشارہ فرماتے وہاں سے بادل چھٹ جاتے۔‘‘ صدق دل کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی طرف رخ کرنے والے اور اجابت کی شرائط کے مطابق دعا کرنے والوں کی دعائوں کی مقبولیت کا ہم آج بھی مشاہدہ کرتے رہتے ہیں۔ دوم: یہ کہ انبیاء کرام کی نشانیاں جنہیں معجزات کہتے ہیں اور جن کا لوگ مشاہدہ کرتے یا سنتے ہیں، وہ انبیاء کی بھیجنے والی ذات کے وجود کی قطعی دلیل ہیں۔ اور وہ ذات اللہ تعالیٰ کی ہے، کیوں کہ معجزات ایسے معاملات ہیں جو انسانی دائرہ اختیار سے باہر ہیں۔ انہیں اللہ تعالیٰ اپنے رسولوں کی تائید و نصرت کی غرض سے ظاہر فرماتا ہے۔ اس کی مثال موسیٰ علیہ السلام کی نشانی اور ان کا معجزہ ہے ۔ جب کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں حکم دیا کہ وہ اپنے عصا سے سمندر کو ماریں، چنانچہ انہوں نے مارا تو سمندر بارہ خشک راستوں میں ایسے تبدیل ہوگیا کہ پانی پہاڑ کی طرح راستوں کے درمیان آگیا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: |