’’کیا یہ لوگ بغیر کسی خالق کے پیدا ہوگئے ہیں یا یہ خود اپنے خالق ہیں، یا انہوں نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا ہے بلکہ یہ لوگ یقین نہیں لاتے۔ کیا ان لوگوں کے پاس آپ کے رب کے خزانے ہیں یا یہ لوگ حاکم ہیں۔‘‘ تو کہا کہ ’’قریب تھا کہ میرا دل پرواز کر جائے۔ اور یہی پہلا موقع تھا جب کہ ایمان میرے دل میں جاگزیں ہوا۔‘‘ (بخاری) مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ہم ایک مثال بیان کردیں جس سے کہ مسئلے کہ وضاحت ہوجائے گی: فرض کرو تم سے کوئی آدمی ایک ایسے عظیم الشان محل کے بارے میں گفتگو کر رہا ہے جس کے چاروں طرف باغات ہیں، ان میں نہریں رواں ودواں ہیں، قالینوں اور مسندوں کی کمی نہیں، ہر طرح کی آرائش سے آراستہ ہے جو اس کے حسن میں چار چاند لگا رہی ہے۔ وہ شخص تم سے کہتا ہے کہ: اس محل اور اس میں پائی جانے والی تمام خوبیوں نے اپنے آپ کو خود پیدا کر لیا ہے یا یہ کہے کہ بغیر ایجاد کے غیر متوقع طور پر یہ خود وجود پاگئی ہیں تو یقینا تم فوراً انکار کردو گے، خبر دینے والے کو جھٹلائو گے اور اس کی اس بات کو بیوقوفی شمار کروگے۔ کیا اس کے بعد بھی کہا جاسکتا ہے کہ آسمان و زمین، افلاک و احوال اور بے مثال نمایاں انتظام والی وسیع کائنات نے اپنے آپ کو وجود دے دیا ہو؟ یا بغیر موجد کے غیر متوقع طور پر وجود پاگئی ہے؟ ۳۔ ’’وجود باری تعالیٰ پر شرعی دلالت‘‘ یہ ہے کہ تمام آسمانی کتابیں اس بات کااقرار کرتی ہیں۔ مخلوق کے حق میں جتنے مصلحت آمیز احکام ان کتابوں میں مذکور ہیں دلیل ہیں کہ وہ احکام ایسے رب کی جانب سے ہیں جو حکمت والا اور اپنی مخلوق کے مصالح کا جان کار ہے۔ ان کتابوں کی کائنات سے متعلق وہ تمام خبریں (حالات جن کے گواہ ہیں) اس بات کا دلیل ہیں کہ وہ خبریں ایسے رب کی طرف سے ہیں جو اپنی خبر کے مطابق ایجاد کرنے پر قادر ہے۔ ۴۔ ’’وجود باری تعالیٰ پر محسوسات کی دلالت‘‘ دو طریقہ سے ہے: اول: یہ کہ ہم دعا کرنے والوں کی اجابت اور پریشان حالوں کی مدد کے بارے میں |