خالق کا ہونا ضروری ہے جس نے انہیں وجود بخشا ہے۔ کیوں کہ یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ مخلوق خود وجود پذیر ہوگئی ہو اور نہ یہ ممکن ہے کہ ان کا وجود غیر متوقع طور پر ہوگیا ہو۔ مخلوق خود وجود پذیر اس لیے نہیں ہوسکتی کہ کوئی بھی چیز اپنے آپ کی خالق نہیں ہوتی۔ کیوں کہ وہ اپنے وجود سے پہلے معدوم تھی، لہٰذا خالق کیسے ہوسکتی ہے؟ غیر متوقع طور پر اس کا وجود اس لیے نہیں ہوسکتا کہ ہر وجود پانے والے کے لیے ایک وجود دینے والا بھی ہونا چاہیے۔ اور اس لیے بھی کہ اس بے مثال، باہم مربوطِ نظم و نسق اور اسباب و مسببات نیز تمام کائنات کے درمیان مکمل ربط و ضبط کے ساتھ مخلوقات کا وجود بالکلیہ انکار کرتا ہے کہ ان کا وجود غیر متوقع طور پر یوں ہی ہوگیا ہو۔ کیوں کہ جس کا وجود غیر متوقع طور پر ہوا ہو اس کا بنیادی طور پر کوئی نظام ہی نہیں ہوگا چنانچہ وہ اپنی بقاء اور ترقی پذیری میں پابندِ نظام کیوں کر ہوگا؟ لہٰذا جب یہ ممکن نہیں کہ مخلوقات خود اپنے وجود کی موجد ہوں، اور نہ ہی یہ ممکن ہے کہ ان کا وجود غیر متوقع طور پر ہو، اس لیے ثابت ہو گیا کہ کوئی نہ کوئی ان کا موجد ہے اور وہ اللہ رب العالمین ہے۔ اس عقلی دلیل اور قطعی ثبوت کا ذکر اللہ تعالیٰ نے سورہ طور میں یوں فرمایا ہے: {أَمْ خُلِقُوْا مِنْ غَیْرِ شَیٍٔ أَمْ ھُمُ الْخَالِقُوْنَo} (طور: ۵۳) ’’کیا یہ لوگ بغیر کسی خالق کے پیدا ہوگئے ہیں یا یہ خود اپنے خالق ہیں۔‘‘ یعنی وہ بغیر خالق کے پیدا نہیں کئے گئے ہیں اور نہ انہوں نے خود کو پیدا کیا ہے۔ لہٰذا ان کے لیے خالق کا ہونا متعین ہوا اور وہ اللہ تبارک و تعالیٰ ہے۔ اسی لیے جب جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ نے حالتِ شرک میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سورہ طور کی اس آیت کو پڑھتے ہوئے سنا کہ: {أَمْ خُلِقُوْا مِنْ غَیْرِ شَیٍٔ أَمْ ھُمُ الْخَالِقُوْنَo أَمْ خَلَقُوْا السَّمٰوٰاتِ وَالْأَرْضِ بَلْ لَّا یُوْقِنُوْنَo أَمْ عِنْدَھُمْ خَزَائِنَ رَبُّکَ أَمْ ھُمُ الْمُسَیْطِرُوْنَo} (طور: ۳۵۔ ۳۷) |