{یٰٓأَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُتِبَ عَلَیْکُمُ الصِّیَامُ کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَo} (البقرۃ: ۱۸۳) ’’اے وہ لوگو جو ایمان لاچکے ہو تمہارے اوپر روزہ واجب کر دیا گیا ہے جس طرح ان لوگوں پر واجب کر دیا گیا تھا جو تم سے پہلے تھے، تاکہ تم متقی بنو۔‘‘ اللہ تعالیٰ کے اس فرمان: {کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ} ’’جس طرح ان لوگوں پر واجب کر دیا گیا تھا جو تم سے پہلے تھے‘‘) میں چند فوائد ہیں: اول۔ روزہ کی اہمیت: اس حیثیت سے کہ اللہ عزوجل نے اسے ہم سے پہلے کی امتوں پر بھی فرض فرمایا تھا یہ چیز اس بات کی دلیل ہے کہ روزہ سے اللہ تعالیٰ کو محبت ہے، اور یہ ہر امت پر لازم رہا ہے۔ دوم۔ اس امت کے لیے آسانی: اس حیثیت سے کہ روزہ جس میں روحانی اور جسمانی مشقت بھی ہوسکتی تنہا اسی امت کو اس کا پابند نہیں بنایا گیا ہے۔ سوم: اس بات کا اشارہ کہ اللہ عزوجل نے اس امت پر اس کا دین مکمل کر دیا ہے۔ اس طرح کہ اس کو وہ تمام فضائل حاصل ہیں جو سابقہ امتوں کو حاصل تھے۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے روزہ کی حکمت اس طرح بیان کی ہے کہ: {لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ} (یعنی ’’تاکہ تم متقی بنو‘‘ )۔ یعنی اپنے روزوں اور تقویٰ کی خوبی سے جو روزہ کا لازمہ ہے، اللہ کے متقی بنو۔ اس فائدے کی طرف نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یوں اشارہ فرمایا ہے: ’’جس نے جھوٹ بولنا اور اس کے مطابق عمل کرنا ترک نہ کیا تو اللہ کو کوئی ضرورت نہیں کہ وہ اپنا کھانا پینا ترک کردے۔‘‘ ٭٭٭ وَدَلِیْلُ الحَجِّ قَوْلُہُ تَعَالَی: {وَ لِلّٰہِ عَلَی النَّاسِ حِجُّ الْبَیْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ اِلَیْہِ سَبِیْلًا وَ مَنْ کَفَرَ فَاِنَّ اللّٰہَ غَنِیٌّ عَنِ الْعٰلَمِیْن} (آل عمران: ۹۷) |