یعنی بنیادی طور پر مجھے فطرت کے مطابق پیدا کیا ہے۔ ابراہیم علیہ السلام کا یہ قول ’’إلا اللّٰہ‘‘ کا معنی دے رہا ہے۔ کیوں کہ اللہ تعالیٰ کا عبادت میں کوئی شریک نہیں ہے جیسے کہ اس کی بادشاہی میں اس کا کوئی شریک نہیں ہے۔ اس کی دلیل یہ فرمان الٰہی ہے: {أَلَا لَہُ الْخَلْقُ وَالْأَمْرُ تَبَارَکَ اللّٰہ رَبُّ الْعَالَمِیْنَo} (الاعراف: ۵۴) ’’یاد رکھو اللہ ہی کے لیے خاص ہے خالق ہونا اور حاکم ہونا بڑی خوبیوں سے بھرا ہوا ہے اللہ رب العالمین۔‘‘ چنانچہ اس آیت میں پیدا کرنے کی قوت اور حاکم ہونے کو تنہا اللہ رب العالمین میں محصور کر دیا گیا ہے۔ لہٰذا قدرتِ خلق اسی کو اور حکم بھی اسی کا ہے، چاہے تکوینی ہو چاہے شرعی۔ یعنی حق کی طرف میری رہنمائی کرے گا اور مجھے اس کی توفیق عنایت کرے گا۔ یعنی اس بات کو جو ابراہیم علیہ السلام نے کہی تھی، یعنی اللہ تعالیٰ کے علاوہ ہر معبود سے مکمل علیحدگی والی بات۔ یعنی ابراہیم علیہ السلام کی اولاد میں۔ یعنی شرک سے باز آکر ابراہیم علیہ السلام کی بات کی طرف لوٹ جائیں۔ اہل کتاب یہود و نصاری سے مناظرہ کے لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے خطاب کیا گیا ہے۔ ’’(ایسی بات کی طرف آئو جو ہمارے اور تمہارے درمیان یکساں ہے‘‘) وہ بات یہ ہے کہ: (’’ہم صرف اللہ کی عبادت کریں گے اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کریں گے اور ہم میں سے کوئی کسی کو اللہ تعالیٰ کے علاوہ رب نہیں بنائے گا۔‘‘) اس جملہ میں ’’(ہم صرف اللہ ہی کی عبادت کریں گے‘‘) ’’لا إلہ الا اللّٰہ‘‘ کا ہم معنی ہے اور (جو ہمارے اور تمہارے درمیان یکساں ہے‘‘) کا معنی یہ ہے کہ ہم اور تم اس عقیدے میں ایک جیسے ہیں۔ یعنی ہم میں سے کوئی کسی کو اللہ تعالیٰ کے علاوہ رب نہیں بنائے گا کہ وہ اس کی ایسی تعظیم کرے جیسی کہ اللہ عزوجل کی تعظیم کی جانی چاہیے اور اس کی ایسی عبادت کرے جیسی کہ اللہ کی کرنی چاہیے اور حکم کو غیر اللہ کے لیے رواجانے۔ |