Maktaba Wahhabi

44 - 80
’’یقینا پہلا کام جس کے ساتھ ہم اپنے اس دن کا آغاز کرتے ہیں، وہ یہ ہے، کہ ہم نماز ادا کرتے ہیں۔ پھر واپس جاکر قربانی کرتے ہیں۔ جس شخص نے اسی طرح کیا، اس نے ہماری سنت کو پالیا۔‘‘ امام بخاری نے اس حدیث پر حسبِ ذیل عنوان تحریر کیا ہے: [بَابُ التَّبْکِیْرِ إِلَی الْعِیْدِ][1] [عید کے لیے جلدی کرنے کے متعلق باب] حافظ ابن حجر تحریر کرتے ہیں:’’یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے، کہ عید کے دن نمازِ عید اور اس کے لیے روانگی کے علاوہ کسی اور کام میں مشغول ہونا مناسب نہیں۔ اور اس سے یہ بات لازم آتی ہے، کہ نمازِ عید سے پہلے دوسرا کوئی اور کام نہ کیا جائے اور اس کا تقاضا یہ ہے، کہ نمازِ عید جلدی ادا کی جائے۔‘‘[2] تنبیہ: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم عید الفطر کی نماز، البتہ قدرے تاخیر سے ادا کرتے تھے۔ امام ابن قیم نے تحریر کیا ہے: ’’وَکَانَ یُؤَخِّرُ صَلَاۃَ عِیْدِ الْفِطْرِ، وَیُعَجِّلُ الْأَضْحٰی۔‘‘[3] ’’آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نمازِ عید الفطر[قدرے]تاخیر سے ادا کرتے تھے اور
Flag Counter