Maktaba Wahhabi

413 - 432
خاتمہ مذکورہ ساری بحث سے واضح ہو گیا کہ جن محدثین اور صحابہ کے حوالے سے علم حدیث میں ’درایت‘ کا ثبوت پیش کیا گیا ہے، ٭ اول توان صحابہ کرام اور محدثین کے یہاں ان چیزوں کو تحقیق ِروایت میں علامت کی حیثیت دی جاتی ہے، نہ کہ علت کی۔ ٭ دوسر ا یہ کہ انہوں نے متن سے متعلقہ ضروری قسم کی ’درایت‘ کا خود مکمل وشافی اہتمام کیا ہے۔ ٭ تیسرا یہ کہ متن کی ضروری تحقیق کرتے ہوئے اگر وہ مشکل حل نہیں ہوپائی، توسند صحیح ہونے کی وجہ سے روایت کو ضعیف کہے بغیرمتن اور روایت کے معنی کو ایک خاص وقت تک کیلئے چھوڑ دیا ہے۔ چنانچہ درایتی معیار کے قائلین کے بقول عین الإصابہ وغیرہ کتب کے حوالے سے ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اور دیگر صحابہ رضی اللہ عنہم نے جو بعض صحابہ کی روایات پر تبصرہ فرمایاہے، تودرحقیقت ان صحابہ کی روایات کو رد نہیں کیا گیا، بلکہ ان صحابہ کا رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم سے اخذ کردہ مفہوم سے اختلاف کیا گیا ہے۔یہی وجہ کہ محدثین رحمہم اللہ اس طرح کی تمام روایات کو اپنی کتب میں صحیح احادیث کے ضمن میں پیش کرتے ہیں اور حل نہ ہونے والے اختلاف کو ضعیف کہنے اور چھوڑنے کے بجائے اس پر’ توقف ‘کرتے ہیں ۔ نیزاگر ترجیح بھی دیں تو ترجیح دینے کے باوجود مرجوح روایات کو صحیح احادیث میں ہی بیان کرتے ہیں کہ ممکن کہ اس قسم کی روایت کا کوئی معنی کسی خاص حالات کے پیش نظر کسی اور وقت کھل جائے، جیسا کہ عدالتوں میں پڑی مقدمات کی فائلیں کئی کئی سال بعد کوئی حل نکلنے کی صورت میں دوبارہ کھل جاتی ہیں ۔ اسی طرح ہماری گذارشات سے یہ بات بھی کھل کر سامنے آجاتی ہے کہ احادیث نبویہ میں سے کوئی حدیث بھی اپنے متن کے اعتبار سے عقل کے خلاف نہیں ہے اور منکرین حدیث کی طرف سے جن احادیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو عقل یا مسلمات کے منافی سمجھ لیا گیاہے، وہ صرف عدم تدبر اور ان میں عقل سلیم کے ساتھ غوروفکر نہ کرنے کا نتیجہ ہے۔ علمائے حدیث ان احادیث ثابتہ کو سنجیدگی کے ساتھ زیر غور لائے ہیں ، جنہیں منکرین حدیث کے مختلف گروہوں کی طرف سے خلاف قرآن، یا خلاف سنت، یا عقل عام کے خلاف کہہ کر رد کرنے کا دعوی کیا جاتا ہے۔ پھر وہ اس بارے میں اس نتیجہ پر پہنچے ہیں کہ اصول حدیث کی روشنی میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہونے والی حدیث نہ تو قرآن کریم یا سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف ہوتی ہے اورنہ ہی عقل صحیح اس کے قبول کرنے سے اباء کرتی ہے۔ المختصر حدیث نبوی یعنی وحی خفی اور وحی جلی میں تضاد ممکن نہیں ہے۔ تحقیق حدیث کے لئے درکار تمام اصول محدثین کرام رحمہم اللہ کے پیش نظر تھے، جن پرپورا اترنے کے بعد ہی انہوں نے کسی حدیث کی صحت کا اور قابل قبول ہونے کا فیصلہ کیا ہے۔ اب اہل تجدد اور باطل خیالات کے حامل لوگ اگر اپنے نظریات کو قرآن و سنت کے مطابق بنانے کے لئے اصول سازی کریں اور ان تمام مسائل کو رد کردیں ، جو قرآن و سنت کے خلاف ہیں ، تو یہ ایک مسلمان کا رویہ ہوگا، لیکن اگر وہ اس کے برعکس قرآن و سنت کو ’تدبر‘ یا ’درایت‘ کے سائے تلے، اپنے خود ساختہ اصولوں کے موافق بنانے کی کوشش کریں گے اور اپنے افکار کے خلاف قرآن کریم کی آیات کے منسوخ ہونے کا دعویٰ کریں ، یا ا س کے خلاف آنے والی احادیث نبویہ کو رد کرنے کے لئے اصول بنائیں گے تو اس کی بھرپور حوصلہ شکنی ہونی چاہیے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں ہدایت دے،نیز قرآن وسنت کا صحیح فہم اور حق بات کو انشراح صدر سے قبول کرنے کی توفیق بخشے ۔ آمین!
Flag Counter