یہ اس لیے کہ ﴿﴿ ٖ وَ ہُوَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ ﴾ وہ سب پر غالب ہے۔ ﴿وَ اللّٰہُ غَالِبٌ عَلٰٓی اَمْرِہٖ وَ ٰلکِنَّ اَکْثَرَ النَّاسِ لاَ یَعْلَمُوْنَ﴾ [1] ’’اور اللہ اپنے کام پر غالب ہے لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے۔‘‘ علامہ راغب رحمہ اللہ نے فرمایا ہے ’’العزیز‘‘ وہ ہے جو غالب ہو مغلوب نہ ہو۔(مفردات) لہٰذا اس کے فیصلوں کو کوئی روک نہیں سکتا۔ اور غالب ہونے کے ساتھ ساتھ ’’حکیم‘‘ بھی ہے کہ اس کا جو بھی فیصلہ ہوتا ہے حکمت پر مبنی ہوتا ہے۔ کسی کو دینے میں بھی حکمت ہے اور نہ دینے میں بھی کوئی حکمت کار فرما ہے۔ بلکہ انسان کے اعضا، ان کی بناوٹ، اور ان کو مناسب جگہ پر رکھنے میں بڑی حکمتیں ہیں۔ کائنات میں پھیلی ہوئی تمام مخلوق حتی کہ شجر وحجرکو بنانا بھی حکمت سے خالی نہیں۔ غرض یہ کہ حکیم کا کوئی فعل وامر حکمت سے خالی نہیں مگر انسان اس کی حکمتوں کو جاننے سے قاصر ہے۔ یاد رہے کہ صرف اللہ تعالیٰ ہی ہے جو غالب وحکیم ہے۔ ورنہ ہر غالب، حکیم نہیں ہوتا۔ بلکہ وہ درندگی پر اتر آتا ہے۔ امریکہ کی تازہ مثال ہمارے سامنے ہے۔ البتہ جسے اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے حکمت ودانائی کی توفیق عطا فرمائی ہو وہ اس قسم کی حماقتوں سے محفوظ رہتا ہے۔ سیّدِ کائنات محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیاتِ طیبہ اس کی ایک روشن مثال ہے۔ جب اللہ ہی غالب وحکیم ہے اور اس کے فیصلہ کو کوئی ردّ بھی نہیں کرسکتا ہے تو چاہیے کہ جو کچھ طلب کیا جائے اسی سے طلب کیا جائے۔ مسلمانوں کا جب تک اسی غالب ہستی سے واسطہ رہا عزت پاتے رہے اور جب اس سے ناطہ توڑا ذلیل ہوئے۔ عزیزیکہ ہرگز درش سر بتافت بہر در کہ شد ہیچ عزت نیافت وہ ایسا غالب ہے کہ جس نے اس کے دروازے سے سر پھیرا، وہ جس دروازے پر بھی پہنچا اس نے کوئی عزت نہ پائی۔ |