بعض مفسرین نے اس کا مفہوم یہ بیان کیا ہے کہ مثلیت کا تعلق آسمانوں کی تعداد سے نہیں بلکہ اس کا تعلق ’’خلق‘‘ سے ہے کہ اللہ تعالیٰ جس طرح آسمانوں کا خالق ہے اسی طرح زمین کا بھی وہی خالق ہے۔ (روح المعانی) جب کہ بعض نے فرمایا ہے کہ اس سے مراد سات زمینیں ہیں بلکہ یہ بھی کہ جیسے اس زمین پر انسان بستے ہیں اور ان کی ضروریاتِ زندگی اس سے پوری ہورہی ہیں اسی طرح باقی زمینوں پر بھی آبادی ہے۔ چناں چہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے جب ان کے تلمیذ رشید امام مجاہد رحمہ اللہ نے اسی آیت کے بارے میں دریافت کیا تو انہوں نے فرمایا: اگر میں اس کی تفسیر لوگوں کے سامنے بیان کروں تو لوگ کافر ہوجائیں گے اور ان کا کفر اس حقیقت کا انکار ہے۔ حضرت سعید بن جبیر رضی اللہ عنہ نے بھی اسی طرح کا قول حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے نقل کیا ہے۔ [1] بلکہ امام ابن جریر رحمہ اللہ وغیرہ نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے نقل کیا ہے کہ انہوں نے فرمایا: ’ سَبْعٰ اَرْضِیْنَ فِیْ کُلِّ اَرْضٍ نَبِیٌّ کَنَبِیِّکُمْ وَآدَمُ کَآدَمَ وَنُوْحٌ کَنُوْحٍ وَاِبْرَاہِیْمُ کَاِبْرَاہِیْمَ وَعِیْسَی کَعِیْسَی‘[2] ’’سات زمینیں ہر زمین پر تمہارے نبی جیسا نبی ہے آدم جیسا آدم، نوح جیسا نوح، ابراہیم جیسا ابراہیم اور عیسیٰ جیسا عیسیٰ ۔‘‘ علامہ محمود آلوسی رحمہ اللہ نے تو اس کو صحیح قرار دیا بلکہ فرمایا ہے کہ اس کو صحیح ماننے میں نہ عقلاً کوئی چیز مانع ہے نہ شرعاً۔ اور اس سے مراد یہ ہے کہ ہر زمین میں ایک مخلوق ہے جو ایک اصل کی طرف لوٹتی ہے جس طرح اولادِ آدم ہماری زمین میں آدم علیہ السلام کی طرف لوٹتی ہے۔ اور ان میں ایسے افراد پائے جاتے ہیں جو دوسروں کی نسبت ممتاز ہیں جیسے ہمارے ہاں نوح اور ابراہیم وغیرہما ہیں۔[3] |