اسی آیت کے ضمن میں علامہ زمخشری وغیرہ یہ دور کی کوڑی بھی لائے ہیں کہ میٹھے اور کھاری سمندروں کے پسِ منظر میں مومن اور کافر کی بھی مثال ہے۔ مومن میٹھے پانی کی مانند ہے جب کہ کافر کھاری پانی کی طرح ہے۔ مگر کھاری پانی پر مشتمل سمندر تو کافر سے بھی بہتر ہے کیوں کہ اس سے گوشت اور موتی حاصل ہوتے ہیں اور ان میں کشتیوں کے ذریعے سے اللہ کا فضل حاصل کیا جاتا ہے مگر کافروں سے تو کسی منفعت کی بھی توقع نہیں۔ جیسے اللہ تعالیٰ نے ان کے بارے میں فرمایا ہے: ﴿ثُمَّ قَسَتْ قُلُوْبُکُمْ مِّنْم بَعْدِ ذٰلِکَ فَہِیَ کَالْحِجَارَۃِ اَوْ اَشَدُّ قَسْوَۃًط وَ اِنَّ مِنَ الْحِجَارَۃِ لَمَا یَتَفَجَّرُ مِنْہُ الْاَنْہٰرُط وَ اِنَّ مِنْہَا لَمَا یَشَّقَّقُ فَیَخْرُجُ مِنْہُ الْمَآئُط وَ اِنَّ مِنْہَا لَمَا یَہْبِطُ مِنْ خَشْیَۃِ اﷲِط وَ مَا اللّٰہُ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُوْنَ ﴾ [1] ’’پھر اس کے بعد تمہارے دل سخت ہوگئے تو وہ پتھروں جیسے ہیں، یا سختی میں (ان سے بھی) بڑھ کر ہیں اور بے شک پتھروں میں سے کچھ یقینا وہ ہیں جن سے نہریں پھوٹ نکلتی ہیں اور بے شک ان سے کچھ یقینا وہ ہیں جو پھٹ جاتے ہیں، پس ان سے پانی نکلتا ہے اور بے شک ان سے کچھ یقینا وہ ہیں جو اللہ کے ڈر سے گر پڑتے ہیں اور اللہ اس سے ہرگز غافل نہیں جو تم کررہے ہو۔‘‘ علامہ آلوسی نے اسی کو ترجیح دی ہے۔ مگر سیاقِ کلام میں یہ مثال اللہ تعالیٰ کی قدرتِ کاملہ اور اس کے انعامات کی طرف اشارہ پر مشتمل ہے بعد کی آیت میں بھی اسی حقیقت کا بیان ہے۔ |