آدم علیہ السلام کے بعد باقی اولادِ آدم کو ’’نطفہ‘‘ یعنی تھوڑے سے پانی سے پیدا کیا ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ﴿ثُمَّ جَعَلَ نَسْلَہٗ مِنْ سُللَۃٍ مِّنْ مَّآئٍ مَّہِیْنٍ ﴾ [1] ’’پھر اس کی نسل ایک حقیر پانی کے خلاصے سے بنائی۔‘‘ ایک اور مقام پر فرمایا: ﴿فَلْیَنْظُرِ الْاِنْسَانُ مِمَّ خُلِقَ خُلِقَ مِنْ مَّآئٍ دَافِقٍ یَّخْرُجُ مِنْمبَیْنِ الصُّلْبِ وَ التَّرَآئِبِ ﴾[2] ’’پس انسان کو لازم ہے کہ دیکھے وہ کس چیز سے پیدا کیا گیا۔ وہ ایک اچھلنے والے پانی سے پیدا کیا گیا ہے، جو پیٹھ اور (سینے کی) پسلیوں کے درمیان سے نکلتا ہے۔‘‘ یعنی مرد کی پشت سے اور عورت کے سینے سے پانی نکلتا ہے اور یہ شکمِ مادر میں باہم مل جاتے ہیں اسی سے انسان پیدا ہوتا ہے۔ ﴿ثُمَّ جَعَلَکُمْ اَزْوَاجًا﴾ پھر اس نے تمہیں جوڑے بنایا۔ یعنی اسی پانی سے مرد اور عورت بنائے اور ان کے باہمی جوڑے جوڑ دئیے۔ جسے سورۃ روم میں فرمایا: ﴿وَ مِنْ ٰاٰیتِہٖٓ اَنْ خَلَقَ لَکُمْ مِّنْ اَنْفُسِکُمْ اَزْوَاجًا لِّتَسْکُنُوْآ اِلَیْہَا وَ جَعَلَ بَیْنَکُمْ مَّوَدَّۃً وَّ رَحْمَۃً ط اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لاَیٰتٍ لِّقَوْمٍ یَّتَفَکَّرُوْنَ ﴾[3] ’’اور اس کی نشانیوں میں سے ہے کہ اس نے تمہارے لیے تمہی سے بیویاں پیدا کیں، تاکہ تم ان کی طرف (جا کر) آرام پاؤ اور اس نے تمہارے درمیان دوستی اور مہربانی رکھ دی، بے شک اس میں ان لوگوں |