اسی لیے سید قطب نے اپنی کتاب میں ایسا منہج اپنایا ہے جس کی بدولت شروع میں ہی سورت کے اجزاء کے درمیان ربط اور اس کے اہداف ومقاصد واضح ہو جاتے ہیں ۔ پھر اس کے بعد وہ تفسیر شروع کرتے ہیں تو صحیح ماثور تفسیر ذکر کرتے ہیں اور لغوی مباحث پر صرف اشارہ کرنے پر ہی اکتفا کرتے ہیں ۔ وہ اپنی توجہ بیداریِ ملت، صحیح منہج اور اسلام کے زندگی کے ساتھ ربط پر مبذول کرتے ہیں ۔
یہ کتاب آٹھ جلدوں میں ہے اور چند سالوں میں کئی مرتبہ چھپ چکی ہے کیوں کہ یہ تفسیر تعلیم یافتہ طبقہ میں کافی مقبول ہے۔
درحقیقت یہ تفسیر بہت ہی بڑا فکری ورثہ ہے جس سے عصر حاضر کا مسلمان بے نیاز نہیں ہو سکتا۔
عائشہ عبدالرحمان بنت شاطی کی ’’التفسیر البیانی للقرآن الکریم‘‘:
عصر حاضر میں جن خواتین نے عربی ادب اور اجتماعی فکر میں نام کمایا ہے ان میں ڈاکٹر عائشہ عبدالرحمان بھی ہیں جو بنت شاطی کے نام سے مشہور ہیں ۔
آپ قاہرہ میں کلیۃ الادب اور طالبات کے کلیۃ التربیہ میں تدریس کی ذمہ داری نبھاتی رہیں اور اپنی تدریس کے دوران قرآن کی بعض چھوٹی چھوٹی سورتوں کی تفسیر بھی کرتی رہیں جوکہ ’’تفسیر البیان للقرآن الکریم‘‘ کے نام سے طبع ہوئی۔
بنت شاطی نے اپنی تفسیر میں عربی بیان کا اہتمام کیا ہے، وہ مقدمہ میں ذکر کرتی ہیں کہ میں نے زندگی میں آنے والی لغوی اور ادبی مشکلات کے حل کے لیے یہ طریقہ اختیار کیا ہے۔ نیز انہوں نے بہت ساری عالمی کانفرنسز میں بھی یہ طریقہ پیش کیا ہے۔
۱۹۶۴ء میں ہندوستان میں مستشرقین کی طرف سے منعقد کی جانے والی کانفرس میں انہوں نے بیانی تفسیر کی روشنی میں ہی لغوی مترادفات کی وجہ سے پیش آنے والی مشکلات واضح کرتے ہوئے کہا کہ: میں نے اس تفسیر میں وضاحت کی ہے کہ قرآنی الفاظ کا نہایت باریک بینی سے مطالعہ کیا جائے اور انہیں سیاق وسباق کے مفہوم پر پرکھا تو یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ قرآن کے الفاظ محدود دلالت کے لیے استعمال ہوتے ہیں ، اس لیے ممکن ہی نہیں کہ ایک لفظ دوسرے کی جگہ
|