یعنی جب بھی یہ لوگ اپنے باطل عقیدے کی وجہ سے آپ سے کوئی عجیب وغریب سوال کرتے ہیں تو ہم آپ کو اس کا درست جواب عطا کر دیتے ہیں جو ان کے باطل سوالوں کا بہترین جواب بن جاتا ہے۔
چناں چہ جب انہوں نے قرآن کے قسط وار نازل ہونے پر تعجب کا اظہار کیا تو اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے حق کی وضاحت فرما دی کہ قرآن کو تھوڑا تھوڑا نازل فرمانا ان کے لیے چیلنج ہے۔ اس طرح وہ اس جیسا کلام لانے سے عاجز آگئے اور اس سے قرآن کریم کا اعجاز ثابت ہو گیا۔ ان سے کہا گیا تم بھی اس جیسا لے آؤ، اسی لیے ان کے اعتراض: ﴿لَوْلَا نُزِّلَ عَلَیْہِ الْقُرْاٰنُ جُمْلَۃً وَّاحِدَۃً﴾ (الفرقان: ۳۲) کے بعد یہ آیت نازل ہوئی کہ جیسی عجیب صفات کا مطالبہ یہ لوگ کرتے ہیں جیسا کہ قرآن کا ایک ہی مرتبہ نازل ہونا تو ہم آپ کو ان کے حالات کی خبر دے دیتے ہیں جو ہماری حکمت علمی کے لحاظ سے آپ کے لیے مناسب اور ان لوگوں کو لاجواب کرنے کے لیے بہت واضح ہوتے ہیں اور یہ کام اس کے قسط وار نزول کے ساتھ ہی ہو سکتا ہے۔ نزولِ قرآن کے قسط وار ہونے کی اس حکمت کی طرف سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ کی روایت بھی اشارہ کرتی ہے۔ فرماتے ہیں :
’’مشرکین جب بھی کوئی نئی بات پیش کرتے تو اللہ تعالیٰ بھی انہیں اسی طرح کا جواب دیتے۔‘‘ (اخرجہ ابن ابی حاتم عن ابن عباس)
تیسری حکمت: سمجھنے اور یاد کرنے میں آسانی:
قرآن کریم ایک اَن پڑھ امت پر نازل ہوا جو لکھنا پڑھنا نہیں جانتی تھی۔ ان کے ریکارڈ کا دارومدار حفظ ویادداشت پر تھا۔ انہیں کتابت وتدوین سے کوئی شغف نہیں تھا کہ اس وحی کو لکھ کر سمجھا اور یاد کیا جا سکتا۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ۔
﴿ہُوَ الَّذِیْ بَعَثَ فِی الْاُمِّیّٖنَ رَسُوْلًا مِّنْہُمْ یَتْلُوْا عَلَیْہِمْ اٰیٰتِہٖ وَیُزَکِّیہِمْ وَیُعَلِّمُہُمُ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَۃَ وَاِِنْ کَانُوْا مِنْ قَبْلُ لَفِیْ ضَلَالٍ مُّبِیْنٍ.﴾
(الجمعہ: ۲)
’’اللہ تعالیٰ وہ ذات ہے جس نے ان پڑھ قوم میں رسول مبعوث فرمایا، جو ان کے
|