سے ماں باپ کو گالی دینے اور مارنے کی حرمت سمجھ میں آرہی ہے کیوں کہ آیت کا منطوق یہ ہے کہ انہیں اف کہنا بھی منع ہے، لہٰذا مارنا اور گالی دینا تو بالاولیٰ حرام ہو جائے گا کیوں کہ یہ کام اف کہنے سے زیادہ سخت ہیں ۔
۲۔ لحن الخطاب:
جس میں حکم مفہوم کے لیے اسی طرح ثابت ہو جس طرح منطوق کے ثابت ہوتا ہے۔ مثلاً اللہ تعالیٰ کے فرمان
﴿اِنَّ الَّذِیْنَ یَاْکُلُوْنَ اَمْوَالَ الْیَتٰمٰی ظُلْمًا اِنَّمَا یَاْکُلُوْنَ فِیْ بُطُوْنِہِمْ نَارًا﴾ (النساء: ۱۰)
کی دلالت ثابت کرتی ہے کہ یتیموں کا مال جلانا یا کسی بھی طریقے سے ضائع کرنا حرام ہے کیوں کہ چیز ختم کرنے میں کھانے کے برابر ہے۔
ان دونوں قسموں کو مفہوم موافقت کا نام اس لیے دیا گیا ہے کہ جس چیز سے خاموشی اختیار کی گئی ہوتی ہے، حکم میں منطوق کے موافق ہوتی ہے۔ اگرچہ پہلی نوع میں اضافہ ہوتا ہے اور دوسری میں اس کے برابر ہوتی ہے نیز اس کی دلالت بطور تنبیہ ہوتی ہے۔ یہ تنبیہ ادنیٰ سے اعلیٰ پر ہو یا اعلیٰ سے ادنیٰ پر اور تنبیہ کی یہ دونوں اقسام آیت:
﴿وَ مِنْ اَہْلِ الْکِتٰبِ مَنْ اِنْ تَاْمَنْہُ بِقِنْطَارٍ یُّؤَدِّہٖٓ ڑاِلَیْکَ وَ مِنْہُمْ مَّنْ اِنْ تَاْمَنْہُ بِدِیْنَارٍ لَّا یُؤَدِّہٖٓ اِلَیْکَ﴾ (آل عمران: ۷۵)
میں جمع ہوئی ہیں ، اس میں پہلے جملے:
﴿وَ مِنْ اَہْلِ الْکِتٰبِ مَنْ اِنْ تَاْمَنْہُ بِقِنْطَارٍ یُّؤَدِّہٖٓ اِلَیْکَ﴾ (آل عمران: ۷۵)
میں اس بات کی آگاہی دی جا رہی ہے کہ وہ آپ کو ایک دینار یا اس سے کم بھی واپس کر دے گا، جب کہ دوسرے جملے:
﴿وَ مِنْہُمْ مَّنْ اِنْ تَاْمَنْہُ بِدِیْنَارٍ لَّا یُؤَدِّہٖٓ اِلَیْکَ﴾ (آل عمران: ۷۵)
میں تنبیہ کی جارہی ہے کہ آپ ایک خزانے پر انہیں امین نہ سمجھو۔
۲۔ مفہوم مخالفت:
جس کا حکم منطوق کے مخالف ہو، اس کی چار اقسام ہیں ۔
|