گناہ کبیرہ تو تب بنے گا جب کوئی شخص اپنی مہارت کے اظہار کے لیے یا مذاق اور فضول گفتگو میں قرآن کو بطور تمثیل بیان کرے۔
(بلاغۃ القرآن صفحہ ۳۳)
امثال کے فوائد
۱۔ امثال ایک معقول (عقل میں آنے والی) چیز کو ایک حسی انداز میں ظاہر کرتی ہیں تو عقل بھی اسے قبول کر لیتی ہے کیوں کہ معقول کو جب تک حسی صورت میں بیان نہ کیا جائے وہ عقل میں نہیں آتے جیسے کہ اللہ تعالیٰ نے دکھلاوے کے لیے اپنا مال خرچ کرنے والے شخص کی مثال بیان کی ہے کہ اسے اس کے خرچ پر کچھ بھی ثواب حاصل نہیں ہوتا۔ اللہ رب العزت نے فرمایا:
﴿فَمَثَلُہٗ کَمَثَلِ صَفْوَانٍ عَلَیْہِ تُرَابٌ فَاَصَابَہٗ وَابِلٌ فَتَرَکَہٗ صَلْدًا لَا یَقْدِرُوْنَ عَلٰی شَیْئٍ مِّمَّا کَسَبُوْا﴾ (البقرہ: ۲۶۴)
۲۔ امثال حقائق سے پردہ اٹھا کر غائب کو حاضر کی جگہ پیش کرتی ہیں ، جیسے فرمان باری تعالیٰ ہے:
﴿اَلَّذِیْنَ یَاْکُلُوْنَ الرِّبٰوا لَا یَقُوْمُوْنَ اِلَّا کَمَا یَقُوْمُ الَّذِیْ یَتَخَبَّطُہُ الشَّیْطٰنُ مِنَ الْمَسِّ﴾ (البقرہ: ۲۷۵)
۳۔ کبھی ترغیب کے لیے مثال دی جاتی ہے خصوصاً جب ممثل بہ[1] میں دلی طور پر رغبت ہو۔ مثلاً اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے اللہ کے رستے میں خرچ کرنے والے آدمی کی حالت کو بیان کیا ہے کہ انفاق کے ساتھ اسے بہت زیادہ ملتا ہے، فرمایا:
﴿مَثَلُ الَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ اَمْوَالَہُمْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ کَمَثَلِ حَبَّۃٍ اَنْبَتَتْ سَبْعَ سَنَابِلَ فِیْ کُلِّ سُنْبُلَۃٍ مِّائَۃُ حَبَّۃٍ وَ اللّٰہُ یُضٰعِفُ لِمَنْ یَّشَآئُ وَ اللّٰہُ وَاسِعٌ عَلِیْمٌ.﴾ (البقرہ: ۲۶۱)
۴۔ جب ممثل بہ سے دل نفرت کرتے ہوں تو مثال لانے کا مقصد نفرت دلانا ہوتا ہے۔ جیسے کہ غیبت کی ممانعت میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿وَلَا یَغْتَبْ بَعْضُکُمْ بَعْضًا اَیُحِبُّ اَحَدُکُمْ اَنْ یَّاْکُلَ لَحْمَ اَخِیْہِ مَیْتًا
|