اسی طرح زمین کے بنجر ہو جانے کے بعد اسے دوبارہ آباد کرنے کی مثال دے کر موت کے بعد حساب کے لیے دوبارہ اٹھانے پر استدلال کیا ہے۔ فرمایا:
﴿وَمِنْ اٰیٰتِہٖٓ اَنَّکَ تَرَی الْاَرْضَ خَاشِعَۃً فَاِِذَآ اَنزَلْنَا عَلَیْہَا الْمَآئَ اہْتَزَّتْ وَرَبَتْ اِِنَّ الَّذِیْٓ اَحْیَاہَا لَمُحْیِ الْمَوْتٰی﴾ (فصلت: ۳۹)
۳۔ کبھی مدِمقابل کے دعویٰ کو مخالف دلیل سے باطل کیا جاتا ہے، جیسے اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
﴿وَ مَا قَدَرُوا اللّٰہَ حَقَّ قَدْرِہٖٓ اِذْ قَالُوْا مَآ اَنْزَلَ اللّٰہُ عَلٰی بَشَرٍ مِّنْ شَیْئٍ قُلْ مَنْ اَنْزَلَ الْکِتٰبَ الَّذِیْ جَآئَ بِہٖ مُوْسٰی نُوْرًا وَّ ہُدًی لِّلنَّاسِ تَجْعَلُوْنَہٗ قَرَاطِیْسَ تُبْدُوْنَہَا وَ تُخْفُوْنَ کَثِیْرًا وَ عُلِّمْتُمْ مَّا لَمْ تَعْلَمُوْٓا اَنْتُمْ وَ لَآ اٰبَآؤُکُمْ قُلِ اللّٰہُ ثُمَّ ذَرْہُمْ فِیْ خَوْضِہِمْ یَلْعَبُوْنَ.﴾ (الانعام: ۹۱)
اللہ تعالیٰ نے یہ آیت یہودیوں کی بات ﴿مَآ اَنْزَلَ اللّٰہُ عَلٰی بَشَرٍ مِّنْ شَیْئٍ﴾ کا رد کرتے ہوئے فرمائی ہے۔
۴۔ اوصاف کو محدود کر کے اور ان میں سے کسی ایک وصف کو حکم کی علت قرار دینے کے نظریے کو باطل ٹھہرا کر آزمائش اور تقسیم کرنا، جیسے فرمایا:
﴿ثَمٰنِیَۃَ اَزْوَاجٍ مِنَ الضَّاْنِ اثْنَیْنِ وَ مِنَ الْمَعْزِاثْنَیْنِ قُلْ ئٰٓ الذَّکَرَیْنِ حَرَّمَ اَمِ الْاُنْثَیَیْنِ اَمَّا اشْتَمَلَتْ عَلَیْہِ اَرْحَامُ الْاُنْثَیَیْنِ نَبِّئُوْنِیْ بِعِلْمٍ اِنْ کُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ. وَ مِنَ الْاِبِلِ اثْنَیْنِ وَ مِنَ الْبَقَرِ اثْنَیْنِ قُلْ ئٰٓ الذَّکَرَیْنِ حَرَّمَ اَمِ الْاُنْثَیَیْنِ اَمَّا اشْتَمَلَتْ عَلَیْہِ اَرْحَامُ الْاُنْثَیَیْنِ اَمْ کُنْتُمْ شُہَدَآئَ اِذْ وَصّٰکُمُ اللّٰہُ بِہٰذَا فَمَنْ اَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرٰی عَلَی اللّٰہِ کَذِبًا لِّیُضِلَّ النَّاسَ بِغَیْرِ عِلْمٍ اِنَّ اللّٰہَ لَا یَہْدِی الْقَوْمَ الظّٰلِمِیْنَ﴾ (الانعام: ۱۴۳۔۱۴۴)
۵۔ مدمقابل کا اس طرح ناطقہ بند کرنا کہ جو بات وہ ثابت کرتا ہے، اسے کوئی نہیں مانتا۔ جیسے اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
﴿وَ جَعَلُوْا لِلّٰہِ شُرَکَآئَ الْجِنَّ وَ خَلَقَہُمْ وَ خَرَقُوْا لَہٗ بَنِیْنَ وَ بَنٰتٍ بِغَیْرِ
|