ورنہ مانناپڑےگاکہ قادیاں کے نام پر جو دوسرے دیہات آباد ہیں وہ بھی اسی لفظی ارتقا کے بُوتہ میں تحلیل ہوتے ہوتے قادیاں بنے ہیں حالانکہ اس کاکوئی ثبوت نہیں ملتاکہ ان دیہات میں بھی اسی قسم کےواقعات پیش آئے ہوں کہ جنھوں نےان کے نام میں تبدیلیاں کرتے کرتے انھیں قادیاں سے موسوم کردیا۔اس سے ظاہر ہے کہ یہ ساری سخن تراشی محض مرزاقادیانی کے رشحۂ فکراور قوت اختراع کا نتیجہ ہے۔‘‘[1] اس مضمون میں نبوت کے جھوٹے دعویدارقادیانی اور اس کے خلفاکا تعارف مقصود ہے تاکہ قارئین کے سامنے اس افتراءپردازاور جھوٹے نبی اوراس کے کذاب خلفا کا مکروہ چہرہ سامنے آجائے اور وہ اس بات سے بخوبی آگاہ ہوں کہ ان کے کفر وارتداد میں رتی برابر بھی شک کی گنجائش نہیں ۔ قبل اس کے کہ مضمون کا آغاز کیا جائے مناسب معلوم ہوتاہے کہ یہاں معروف صحافی اورنڈرخطیب آغاشورش کاشمیری مرحوم کی کتاب ’’تحریک ختم نبوت‘‘ سے ایک اقتباس پیش کردیاجائے جس سے یہ واضح ہوگاکہ قادیانیت فرنگی کاکاشت کردہ تخم حرام ہے۔ آغاشورش کاشمیری مرحوم ’’مرزا غلام احمد ----ایک استعماری ضرورت‘‘کا عنوان قائم کرکےچند تمہیدی باتوں کے بعد تحریر کرتے ہیں : ’’انگلستان کی حکومت نے ہندوستان سے برطانوی عمال کی ان یاداشتوں کاجائزہ لینے اور صورتحال کا بلاواسطہ مطالعہ کرنے کےلیے 1869ء کے شروع میں برٹش پارلیمنٹ کے ممبروں ،بعض انگلستانی اخبارات کے ایڈیٹروں اور چرچ آف انگلینڈ کے نمائندوں پر مشتمل ایک وفد ہندوستان بھیجا۔ وفد کا مقصد یہ تھا کہ وہ پتہ چلائے کہ ہندوستانی عوام میں دفاداری کیونکر پیداکی جاسکتی ہے اور مسلمانوں کے جذبۂ جہاد کو سلب کرکے انھیں کس طرح رام کیاجاسکتاہے۔اس وفد نے واپس جاکر دو رپورٹیں مرتب کیں ۔جن ارکان نے ’’the arrival of british empire in india‘‘ ’’ہندوستان میں برطانوی سلطنت کی آمد‘‘ کے عنوان سے رپورٹ لکھی،انھوں نے لکھا:’’ہندوستانی مسلمانوں کی اکثریت اپنے روحانی رہنماؤں کی اندھادھند پیروکار ہے۔اگر اس وقت ہمیں کوئی ایسا |