ترجمہ: سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما روز محشر کے متعلق ایک طویل حدیث بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں : ’’لوگ شفاعت کرانے عیسیٰ علیہ السلام کے پاس پہنچیں گے تو عیسیٰ علیہ السلام ان سے فرمائیں گے :’’تمہارا کیاخیال ہے کہ اگر مطلوبہ سامان کسی ایسے برتن میں ہو جسے مہر لگا کر بند کردیا گیا ہو تو کیا اس برتن میں موجود چیز کو اس مہر کو کھولے بغیر حاصل کیا جاسکتا ہے؟ تو لوگ جواب دیں گے کہ : نہیں ، تو عیسیٰ علیہ السلام فرمائیں گے: ’’ بے شک محمد صلی اللہ علیہ وسلم خاتم الانبیاء ہیں ، اور وہ آج تمہارے درمیان موجود ہیں ، اور ان کے تو اگلے پچھلےتمام گناہ بھی معاف کردئیے گئے ہیں ( لہٰذا ان سے شفاعت کا مطالبہ کرو) ۔‘‘ 5.’’اگر کوئی نبی ہوتا‘‘ سے ختم نبوت کی صراحت: 11.’’عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللهِ صلی اللّٰه علیہ وسلم لَوْ كَانَ بَعْدِي نَبِيٌّ لَكَانَ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ۔‘‘[1] ترجمہ: عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ اگر میرے بعد کوئی نبی ہوتا تو وہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ ہوتے ۔‘‘ چونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد سلسلہ نبوت ختم ہوچکا ہے اس لئے اب یہ شرف کسی کو حاصل نہیں ہوگا، اور اگر اس شرف کا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی حقدار ہوتا تو وہ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ تھے ، تو جب سیدنا عمر جیسی شخصیت منصب نبوت تک نہ پہنچ سکی تو اور کون ایسا شخص ہے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اس درجہ پر فائز ہونے کا دعوی کرسکے ، یقینا یہ جرات کسی نہایت ہی بد دیانت اور مجرم شخص ہی کی ہوسکتی ہے ، کوئی مومن شخص اس کا تصور بھی نہیں کرسکتا۔ 6.جھوٹے مدعیان نبوت کا بیان اور ختم نبوت 12.’’وَإِنَّهُ سَيَكُونُ فِي أُمَّتِي كَذَّابُونَ ثَلَاثُونَ, كُلُّهُمْ يَزْعُمُ أَنَّهُ نَبِيٌّ، وَأَنَا خَاتَمُ |