حضرت خواجہ صاحب سیالوی نے مجھے اس کام کا اہل سمجھا اور میں ان کے ارشاد کے مطابق خواجہ صاحب تونسوی کے پاس اسلام آباد پہنچ گیا اور قادیانیوں کے خلاف قرار داد منظور ہونے تک وہیں رہا۔ پیر آف سیال کے ارشاد پر جب اسلام آباد جانے کا پروگرام طے پایا تو اسلام آباد میں قیام کے مصارف کا مسئلہ سامنے آیا۔ سرگودھا میں تحفظ ختم نبوت کی تنظیم سے کچھ لینا میری جماعت کو پسند نہ تھا اور مقامی جماعت سے اخراجات وصول کرنا مجھے گوارا نہ تھا۔ آخر اس مشکل کو محترم الحاج میاں عبدالستار صاحب آزادؔ نے حل کر دیا۔ انھوں نے یہ بوجھ اپنے ذمے لے لیا اور اسے پوری طرح نبھایا۔ وعند اللّٰہ في ذاک الجزاء راولپنڈی پہنچ کر میں نے سب سے پہلے مختلف ذرائع سے یہ معلوم کیا کہ مجھے جو کچھ کرنا ہے اس کے حدود کیا ہیں اور اس کا طریق کار کیا ہے۔ مجھے معلوم ہوا کہ مفتی محمود، شاہ احمد نورانی، مولانا عبدالحکیم، پروفیسر عبدالغفور اور کچھ دوسرے حضرات نے بھی اس مقصد کے لیے کچھ علما کی خدمات حاصل کی ہیں ۔ میں ان سب سے ملا لیکن شرح صدر نہ ہوا۔ آخر براہِ راست سکریننگ کمیٹی کے چیئرمین سے ملاقات کی۔ وہ راسخ العقیدہ مسلمان، جدید تعلیم یافتہ اور قانون مروجہ کے طالب علم تھے۔ ان کی راہنمائی سے مجھے بڑا اعتماد حاصل ہوا۔ مزید برآں انھوں نے خود بھی مرزائی سیاسیات کے موضوع پر مجھ سے معلومات حاصل کیں ۔ مرزا ناصر احمد نے اپنے بیان میں جن حقائق کو چھپایا تھا، وکیل استغاثہ کی طرح ہم ان کی زبان ہی سے وہ اگلوانا چاہتے تھے اور اراکین اسمبلی کو بتانا چاہتے تھے کہ انھوں نے اس معزز ایوان کو جو معلومات فراہم کی ہیں وہ غلط بیانی اور فریب دہی کے زمرے میں آتی ہیں ۔ اٹارنی جنرل ممبرانِ اسمبلی کے حوالے سے جو سوال مرزا ناصر سے پوچھتے تھے، دراصل وہ ہمارے ہی تیار کردہ سوال تھے جو درمیانی کمیٹیوں سے پاس ہو کر وہاں تک پہنچتے تھے۔ بعد ازاں حافظ کمیر پوری رحمہ اللہ نے اپنی کتاب ’’فسانہ قادیان‘‘ (ص: ۶۴۔۷۰) میں وہ مدلل چھبیس سوالات درج کیے ہیں جو انھوں نے لکھے اور ممبر نیشنل اسمبلی خواجہ غلام سلیمان تونسوی نے ۲۵ جولائی ۱۹۷۴ء کو قومی اسمبلی میں پیش کیے تھے، علاوہ ازیں حافظ ابراہیم صاحب مرحوم نے مزید ۱۸ متفرق سوالات بھی اپنی کتاب میں درج کیے ہیں جو ان کے تیار کردہ تھے اور قومی اسمبلی میں زیر بحث لائے گئے۔ طوالت کے |