روایت کرنے جھوٹ بہت زیادہ پھیل گیا تھا۔ اور فقہ میں کثرت سے رائے زنی کی جاتی۔ اور شیعیت یہاں پر جڑیں پکڑنے لگی۔ جب کہ جمہور اہل علم کلام اور تصوف بصرہ میں تھے۔ اس لیے کہ حسن بصری اور ابن سیرین کی موت کے تھوڑے ہی عرصہ بعد عمرو بن عبید اور واصل بن عطا[1]اور ان کے متبعین اہل کلام اور معتزلہ کا ظہور ہوا۔ ایسے ہی أحمد بن علی الہجیمی کا ظہور ہوا جو کہ عبد الواحد بن زید[2] کا ساتھی تھا۔ پھر آپ نے مختلف شہروں کے متعلق گفتگو کی ہے ؛ کہ کون سا شہر سنت کے زیادہ قریب تھا؟ چنانچہ ۱۰/۳۶۰ پر آپ فرماتے ہیں : ’’ اہل مدینہ ان تمام لوگوں سے بڑھ کر سنت کے قریب تھے۔ اس لیے کہ یہ لوگ اہل بصرہ اور اہل کوفہ کی طرح منحرف نہیں ہوئے تھے۔ نہ ہی رائے اور کلام کے پیچھے لگے نہ ہی سماع اور دوسری بیماریاں ان |