ہے۔وہ اس پر عقوبت کے مستحق ہیں ؛ اور اس کے ساتھ ہی ان سے جزیہ بھی لیا جائے گا ؛ اور ماضی کا جزیہ بھی وصول کیا جائے گا‘‘واللہ اعلم۔ [۲۸/۶۶۴] سادساً: زمانی و مکانی ضابطہ کا استعمال جیسا کہ قبروں پر درگاہوں اورمقبروں کا ظہور؛(۲۷/۴۶۶)[پر فرماتے ہیں ] ’’ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام اور تبع تابعین رحمہم اللہ کے عہد مبارک میں بلاد اسلامیہ میں ایسا ہر گزنہیں ہوا کرتا تھا۔ نہ ہی حجاز میں اور نہ ہی یمن اور شام میں نہ ہی عراق اور مصر میں اور نہ ہی خراسان اور مغرب میں ۔اس وقت تک کوئی درگاہ نہیں بنی تھی۔ نہ ہی کسی نبی کی قبر پر اور نہ ہی کسی صحابی یا اہل بیت میں سے کسی ایک کی قبر پر اور نہ ہی کسی ولی اورصالح کی قبر پر۔ اوریہ تمام مقبرے اور درگاہیں اس کے بعد بنائی گئی ہیں ۔ یہ درگاہیں اور مقبرے اس وقت سامنے آئے جب بنو عباس کی خلافت کمزور ہوگئی تھی؛اور امت کئی فرقوں میں بٹ گئی تھی اورمسلمانوں کے لباس میں زندیق لوگ کثرت کے ساتھ پھیل گئی تھی اور ان میں اہل بدعت کو غلبہ اورفروغ مل رہا تھا۔ یہ تیسری صدی ہجری کے آخر میں المقتدر کے ایام حکومت کی بات ہے۔ اس وقت میں بلاد مغرب میں قرامطہ ؛عبیدیہ قداحیہ[1] کا ظہور ہوا۔ |