Maktaba Wahhabi

61 - 100
اور عبداللہ پسران زبیر اور عبداللہ بن عمر جمع ہوئے؛ اور کہنے لگے: اپنی اپنی تمنا کا اظہار کرو۔ عبداللہ بن زبیر نے کہا: میں خلافت کی تمنا کرتا ہوں ۔ عروہ بن زبیر نے کہا: میں تمنا کرتا ہوں کہ لوگ مجھ سے علم حاصل کریں ۔ مصعب بن زبیر نے کہا: میں عراق کی امارت کی تمنا کرتا ہوں ؛اوریہ تمنا کرتا ہوں کہ عائشہ بنت طلحہ اور سکینہ بنت حسین سے میرے نکاح میں جمع ہوں ۔ اور عبداللہ بن عمر نے کہا:’’میں اللہ تعالیٰ سے مغفرت سے کی تمنا کرتا ہوں ۔‘‘ان میں سے ہر ایک نے وہ چیز پالی جس کی اس نے تمنا کی تھی ؛اوریقیناً حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کی مغفرت کردی گئی ہوگی۔‘‘ میں کہتاہوں : یہ سند اس دوسری سند کی نسبت بہت بہتر ہے۔ اس پر تمام اہل علم کا اتفاق ہے۔ نیز اس میں مخلوقات کے وسیلہ سے سوال بھی نہیں کیا گیا۔ ایسے ہی آپ کے ردود میں سے اس وثیقہ پر رد ہے جو یہودیوں نے خطیب بغدادی کے زمانے میں ظاہر کیا تھا۔اور پھر ابن تیمیہ رحمہ اللہ کے دور میں دوبارہ یہ وثیقہ نکال لائے تھے۔ جب آپ سے اس بارے میں سوال کیا گیا کہ ایک یہودی کے پاس ایک تحریرہے ؛ جس کے متعلق اس کا دعوی ہے کہ یہ حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کی تحریر ہے ؛ جس میں تو آپ نے ان سے جزیہ ساقط کیا ہے ؛ تو آپ نے اس کے جواب میں فرمایا:’’ہر ایسی تحریرجس میں یہودی حضرت علی رضی اللہ عنہ یا کسی دوسرے کی طرف سے جزیہ معاف کرنے کا دعوی کرتے ہیں ؛ وہ سراسر جھوٹ
Flag Counter