سند پر نقد وجرح اس کی مثالیں بہت زیادہ ہیں ۔ جب آپ اھل اخبار کے متعلق گفتگو کرتے ہیں ان کے احوال و اخبار کی معرفت کے متعلق بھی بحث کرتے ہیں ۔ چنانچہ (۲۷/۴۷۹پر) آپ فرماتے ہیں: ’’بیشک بیشتر اوقات جو سند کسی مجہول یا کذاب کی طرف منسوب ہوتی ہے ؛ یا جس میں ارسال پایا جاتا ہے؛ ان میں اندھیر در اندھیر ہوتا ہے ۔یہ حال تو ان لوگوں کا ہے جو دوسروں سے کسی سند کے ساتھ یا مرسل روایت کرتے ہیں ۔ جب اہل أھواء اور ان جیسے دوسرے جہلاء ایسی منقولات پر اعتماد کرتے ہیں جن کے کہنے والے کا اصل میں کوئی پتہ ہی نہیں ہوتا کہ وہ ثقہ ہے یا غیر ثقہ ۔اور اپنی طرف سے من گھڑت جھوٹ بولنا تو ان کے لیے سب سے زیادہ آسان ہوتا ہے۔ ان میں سب سے بڑا عالم وہ ہوتا ہے جو کسی بنیادی مرجع و مصدر کی طرف رجوع نہیں کرتا بلکہ جہلاء اور کذابین سے ایسی سنی سنائی باتوں پر اعتماد کرتا ہے جو کہ خود کھلا ہوا جھوٹ ہوتی ہیں ۔‘‘ آپ والی کوفہ عبیداللہ بن زیاد کے کرتوتوں پر بھی بحث کرتے ہوئے ہیں ۔ اسنادی لحاظ سے اپنا موقف ثابت کرتے ہیں ۔چنانچہ آپ (۲۷/۴۷۹پر ) فرماتے ہیں : ’’اور بعض لوگوں نے منقطع اسناد سے روایت کیا ہے کہ یہ واقعہ یزید بن معاویہ کے سامنے پیش آیا۔ یہ بات باطل ہے۔‘‘ |