Maktaba Wahhabi

54 - 100
ہوچکی تھی۔ان کے بعد بنو عباس کی خلافت قائم ہوئی تھی۔ان کے عہد میں عراق اور دوسرے علاقوں میں کئی درگاہیں سامنے آئیں جن میں سے اکثر جھوٹ تھیں ۔ ۲۔ دوسری وجہ (۲۷/۴۶۸): جن لوگوں نے حضرت حسین رضی اللہ عنہ اور آپ کی شہادت کے متعلق روایات و اخبار جمع کی ہیں ؛مثلاً: ابوبکر بن ابی دنیا؛ ابو القاسم البغوی؛ اور ان کے علاوہ دوسرے لوگ ؛ ان میں سے کسی ایک نے بھی یہ نہیں کہا کہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ عسقلان یا قاہرہ لے جایا گیا۔اس طرح کا کلام ابو الخطاب بن دحیہ نے اپنی کتاب میں بھی ذکر کیا ہے جو کہ ’’العلم المشہور فی فضائل الایام و الشہور‘‘ کے نام سے مشہور ہے۔ اس میں وہ کہتا ہے:’’ جن لوگوں نے مقتل حسین رضی اللہ عنہ کے بارے میں تحقیق کی ہے؛ ان کا اجماع ہے کہ آپ کے سر کو کسی بھی دوسرے شہر میں نہیں لے جایا گیا۔اور یہ بھی کہا ہے کہ قاہرہ میں جو قبر حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے سر کی طرف منسوب ہے وہ اپنی طرف سے گھڑاہوا ایک بدترین جھوٹ ہے ۔اس کی کوئی اصل نہیں ۔اورپھر اس نے اس مسئلہ پر تفصیل سے گفتگو کی ہے۔ پھر اس نے یوم عاشوراء کے متعلق بھی گفتگو کی ہے۔ ۳۔ تیسری وجہ : جن علماء اور مؤرخین پر اعتماد کیا جاتا ہے انہوں نے ذکر کیا ہے کہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ کا سر مدینہ طیبہ لایا گیا جہاں پر اسے ان کے بھائی حضرت حسن رضی اللہ عنہ کی قبر کے پاس دفن کیا گیا۔ یہ بات سبھی جانتے ہیں کہ
Flag Counter