کے لیے اس کے خالق نے تجویز فرمایا ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت معاذ کو فرمایا: ((لعلى لا ألقاكم بعد عامي هذا))[1] (مجمع الزوئد) ”شاید میں تمھیں آئندہ نہ مل سکوں۔ “ اسی طرح ایک خاتون سے فرمایا: ((فإنْ لَمْ تَجِدِينِي فَأْتي أَبَا بَكْرٍ))[2](مشکوۃ) ”اگر میں زندہ نہ رہا تو تم (حضرت) ابو بکر کے پاس آنا۔ “ سورت نصر کے نزول پر حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کو خطرہ ہوا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم دنیا سےرخصت ہو جائیں گے، آپ رو دیے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ سنا اور ایک لمحہ کے لیے اسے ناپسند نہیں فرمایا۔ تاریخ سیرت اور سنت کے دفاتر موت کے حوادث سے بھر پور ہیں پھر معلوم نہیں ہم لوگ اس کے ذکرسے لرزہ براندام کیوں ہیں؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے تذکرہ سے از دیوبند تابریلی ارتعاش کی کیفیت طاری ہو جاتی ہے!! احادیث کی کتابوں میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات موت، تجہیز و تکفین، دفن کے عنوان موجود ہیں۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ اس سے گھبراہٹ کیوں ہوتی ہے، بعض امہات المومنین رضی اللہ عنہما نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد سر کے بال کٹوادیے، اس لیے کہ اب ان کی ضرورت نہیں۔ [3](صحیح مسلم) بعض اُمہات المومنین رضی اللہ عنہما نے سر بالکل منڈوادیا۔ [4](مجمع الزوئد) |
Book Name | تحریک آزادی فکر اور شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کی تجدیدی مساعی |
Writer | شیخ الحدیث مولانا محمد اسماعیل سلفی رحمۃ اللہ علیہ |
Publisher | جامع مسجد مکرم اہلحدیث ماڈل ٹاؤن گوجرانوالہ |
Publish Year | مئی 2016ء |
Translator | حافظ شاہد محمود فاضل مدینہ یونیورسٹی |
Volume | |
Number of Pages | 512 |
Introduction |