دین حق پورے سکون کے ساتھ زندگی کے تمام گوشوں پر قابض ہو جائے۔ شیطان کا لشکر پوری خاموشی سے اپنے لیے کوئی اور راستہ اختیار کرے۔ یعنی تصوف اعتدال پر آئے، فقہی جمود ذرا ڈھیلا ہو اور ((مَا أَنَا عَلَيْهِ وَأَصْحَابِي))[1]کے لیے صلح و آشتی سے راستہ صاف ہو جائے۔ دین کا اصل سر چشمہ بہرکیف اللہ کی کتاب اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہی کو رہنا چاہیے۔ ائمہ مجتہدین کے مکاتب فکر راہنمائی کے فرائض انجام دیں گے، خود راہ نہیں بنیں کے۔ حجۃ اللہ البالغہ، مصفٰے اور مسوی، ازلۃ الخفاء، وغیرہ صحف اس حکمت بالغہ، اس رضاعت فکر، اس اعتدال فکر کا پتا دیتے ہیں جو حکیم وقت کو عطا فرمائے گئے تھے۔ وہ چاہتے تھے کہ یہ انقلاب علم و حکمت اور کتاب و سنت کے احیا اور اقامت دین کا مدرسہ قرار پائے اور سر زمین ہند اللہ کے نور سے جگمگا اُٹھے۔ ابلیس کی فوجیں: وقت کا حکیم امن کا خواہشمند ہو، درست ہے، لیکن شر پسند طاقتیں اسے کیوں کامیاب ہونے دیں؟ ان کے پروگرام کی کامیابی بدامنی میں ہے، کشت و خون میں ہے، ہنگامہ آرائی میں ہے۔ یہ حضرات قرآن عزیز کے ترجمہ پر ناراض ہو گئے۔ قبر پرستی کی مخالفت سے لڑائی پر آمادہ ہو گئے۔ تعزیہ داری کو اسلام کا شعار ظاہر کیا جانے لگا دنیا کو باور کرایا گیا کہ خدا کی کتاب کو ولی اللہ نہیں سمجھ سکتا، اس نے ترجمہ نہیں کیا، |
Book Name | تحریک آزادی فکر اور شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کی تجدیدی مساعی |
Writer | شیخ الحدیث مولانا محمد اسماعیل سلفی رحمۃ اللہ علیہ |
Publisher | جامع مسجد مکرم اہلحدیث ماڈل ٹاؤن گوجرانوالہ |
Publish Year | مئی 2016ء |
Translator | حافظ شاہد محمود فاضل مدینہ یونیورسٹی |
Volume | |
Number of Pages | 512 |
Introduction |