اس کے باوجود ایسے بزرگ دنیا میں موجود رہے جو مروجہ مذاہب سے تعلق اور آئمہ کے احترام کے ساتھ اس عصبیت کو ناپسند فرماتے تھے۔ چنانچہ 962ھ میں مولانا احمد بن مصطفٰے تاشبکری زادہ نے مفتاح السعادہ والیسادہ میں فقہ اور فقہاء کے متعلق بڑا معنیٰ خیز ار پُر از معلومات مقالہ لکھا ہے۔ [1]اسکے آخر میں فقہاء مذاہب اور ان کی فرقہ وارانہ عصبیت کے متعلق بڑا دردمندانہ شکوہ فرمایا ہے۔ آج کل دیوبند کی نوآموز پود اسی ڈگر پر جا رہی ہے جس کی شکایت علامہ نے فرمائی ہے۔ خود دیوبند اور اس کی پاک و ہند برانچوں میں تعلیم و تربیت کا انداز اس قدر غلط ہو رہا ہے کہ ان مدارس میں علم اور للہیت کی جگہ تعصب اور فرقہ پرستی پرورش پارہی ہے۔ مختلف فیہ مسائل پر لکھنے کا انداز اتنا غلط ہو رہا ہے کہ اس پر بددیانتی اور خیانت کا شبہ ہوتا ہے۔ تقاریر میں تقویٰ اور عبادت کی بجائے باہم مناقشات بڑھائے جا رہے ہیں۔ مجالس درس میں طلبہ کی ذہنی تربیت بھی عصبیت کے جراثیم ہی سے کی جارہی ہے اور نوآموز حضرات کا یہ غلط رویہ اکابر کو بھی متاثر کر رہا ہے۔ اہل حدیث مدارس میں بھی یہ زہر آلود جراثیم اثر انداز ہو رہے ہیں۔ بریلوی حضرات سے یہ شکایت ہی بے سود ہے ان کے ہاں بظاہر کوئی اصلاحی پروگرام ہی نہیں۔ مذہب کے متعلق چند بدعی تصورات اور عوام کی خوشنودی کے سوا ان کے ہاں مذہب کا کچھ مقصد نہیں۔ علامہ تاشکبری زادہ کا یہ اصلاحی شذرہ دیوبندی اور اہل حدیث مکاتب فکر کے لیے مستقبل کی اصلاح میں بے حد مفید ثابت ہو سکتا ہے۔ عصبیت دراصل علم دریافت کی موت کے مرادف ہے۔ جو شخص حدیث:((اخْتِلَافُ أُمَّتِي رَحْمَةٌ)) [2]کے مفہوم پر غور کرے اور اسے معلوم ہو کہ فرعی مسائل میں اختلاف کی بنیاد ظن پر ہے۔ وہ کسی ایک مجتہد کے حق میں تحکم اور تعصب نہیں رکھ سکتا۔ |
Book Name | تحریک آزادی فکر اور شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کی تجدیدی مساعی |
Writer | شیخ الحدیث مولانا محمد اسماعیل سلفی رحمۃ اللہ علیہ |
Publisher | جامع مسجد مکرم اہلحدیث ماڈل ٹاؤن گوجرانوالہ |
Publish Year | مئی 2016ء |
Translator | حافظ شاہد محمود فاضل مدینہ یونیورسٹی |
Volume | |
Number of Pages | 512 |
Introduction |