Maktaba Wahhabi

34 - 89
بِالَّتِیْ ھِیَ اَحْسَنُ} (سورۃ النحل:۱۲۵) ’’اپنے رب کے راستہ کی طرف حکمت اور نیک نصیحت کے ساتھ دعوت دیں اوران کے ساتھ اچھی بات سے جھگڑا مجادلہ(مناظرہ) کریں ۔‘‘ اِس آیت میں اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ نے وہ کیفیت بیان فرمادی ہے کہ جس سے ہر داعی متّصف اور جس پر ہر مبلّغ عمل پیرا ہو سب سے پہلے وہ حکمت ودانائی کے ساتھ دعوت وتبلیغ کا ٓغاز کرے ۔اور ’’حکمت‘‘ سے مراد مخاطب کے ذہن کو اپیل اور اسے قائل کرنے والے روشن دلائل ہیں جو حق کو واضح کرنے والے اور باطل شکن ہوں ۔یہی وجہ ہے کہ بعض مفسِّرین نے ’’بالحکمۃ‘‘ کا معنیٰ بالقرآن کیا ہے۔کیونکہ قرآنِ پاک عظیم حکمت ودانائی کا منبع وسرچشمہ ہے کہ اس میں کامل ترین شکل میں حق کا بیان اور اس کی وضاحت موجود ہے۔اور بعض مفسِّرین ِ کرام نے’’بالحکمۃ‘‘ کا معنیٰ بِالْاَدِلَّۃِ مِنَ الْکِتَابِ وَالسُّنَّۃِ یعنی قرآن وسنّت کے دلائل کے ساتھ کیا ہے۔ بہر حال’’حکمت‘‘ایک عظیم کلمہ ہے جسکا معنیٰ’’ علم وبصیرت کے بل بوتے پر واضح ومُسکت اور کاشفِ حق دلائل کے ساتھ دعوت الیٰ اللہ کا منصب ادا کرنا‘‘ ہے۔ اور یہ ایک مشترک کلمہ ہے جس کے متعدد وبکثرت معانی ہیں اسکا اطلاق نبوّت ،علم ودانش،تفقّہ فی الدّین،عقل وخِرد،ورع وتقویٰ اور دیگر کئی اشیاء پر ہوتا ہے۔ بقول اما م شوکانی رحمہٗ اللہ تعالیٰ’’حکمت‘‘ دراصل وہ امر ہے جو سفاہت وبیوقوفی سے روکتا ہے اور اسی کا نام ہے حکمت۔لہٰذاحکمت کا معنیٰ یہ بناکہ’’ہر وہ کلمہ اور ہر وہ بات جو تجھے بیوقوفی ونادانی سے روک دے اور باطل سے باز رکھے،ایسے ہی ہر واضح، صریح اور صحیح بات فی نفسہٖ حکمت ہے۔پس قرآنی آیات اس بات کی سب سے زیادہ مستحق ہیں کہ انہیں حکمت کا نام دیا جائے اور کتاب اللہ کے بعد صحیح سنّت (احادیثِ صحیحہ) بھی حکمت کے نام سے موسوم ہونے
Flag Counter