Maktaba Wahhabi

55 - 265
اپنے ہم عمر بچوں کے ساتھ کھیل کود میں حصہ لیتے تھے۔ آپ اپنی پیاری والدہ کی آنکھوں کی ٹھنڈک تھے اور والد بزرگوار کی امیدیں آپ سے وابستہ تھیں۔ آپ اپنے قبیلے کے شاہسواروں کے ساتھ مقابلوں میں حصہ لیتے اور جب اپنے والد کے پاس واپس لوٹتے تو کامیابی کے تاج آپ کے سر پر ہوتے۔ جب اس طرح کے خیالات آپ کے والدِ گرامی کے دل میں پیدا ہوتے کہ میرا بیٹا بڑا ہو کر عظیم شاہسوار بنے گا تو ان کا دل خوشی سے جھوم اٹھتا اور امیدیں بر آتیں لیکن یہ خواب شرمندۂ تعبیر نہ ہو سکے۔ رومی لشکر اس بستی پر ٹوٹ پڑے۔ انھوں نے بستی والوں کو لوٹا بھی اور بہت سے لوگوں کو قید کر کے لے گئے جن میں صہیب بھی تھے۔ وہ ابھی کم سن تھے اور اسی کم عمری ہی سے انھیں قید وبند اور ہجر کی صعوبتوں سے واسطہ پڑا۔ والدین کے سایۂ عاطفت میں آسائش و خوشحالی کے ساتھ بہت ہی کم عرصہ رہے اور دیار غیر ہی میں تھے جب جوانی کی دہلیز پر قدم رکھا۔ اسی عرصے میں قریش کے تجارتی قافلوں میں سے ایک قافلہ روم آیا اور اس قافلے میں موجود قبیلہ کلب کے ایک فرد کی ملاقات اس عربی جوان سے ہوئی تو اس نے رومیوں سے یہ غلام خرید لیا۔ وہ اسے مکہ لایا تو عبداللہ بن جدعان رضی اللہ عنہ نے اسے خرید کر آزاد کر دیا۔[1] اس رومی نوجوان نے مکہ کے گلی کوچوں اور پہاڑی راستوں کی خوب پہچان حاصل کر لی۔ محنت و جفا کشی میں اپنا نام پیدا کیا۔ شکار کثرت سے کھیلتا۔ مختلف فنون میں مہارت حاصل کی۔ تیر اندازی، گھڑ سواری اور مد مقابل کو پچھاڑنے میں ماہر تھے۔ اس کے
Flag Counter